طیبہ سے آنے والے میرے قریب آنا- متاع قلم (2001)

طیبہ سے آنے والے میرے قریب آنا
اس چشمِ تر میں خاکِ شہرِ نبیؐ لگانا

دنیا کی خواہشوں سے دامن چھڑا کے اپنا
تو یادِ مصطفیٰؐ کے شب بھر دیے جلانا

کیسے مہک رہی تھیں گلیاں مرے نبیؐ کی
کیسے سجا ہوا تھا آقاؐ کا آستانہ

خوشبو بھرے کٹورے بٹتے تو ہوں گے اب بھی
رہتا تو ہو گا اُنؐ کے قدموں میں اک زمانہ

آنکھیں لگا کے اپنے تلووں سے جب چلے تھے
وہ حاضری کا منظر تھا کس قدر سہانا

چوکھٹ پہ اُنؐ کی جا کے سوچا تو ہو گا تو نے
جبریل کا وہ آنا جبریل کا وہ جانا

ہر اک قدم پہ دھڑکن دل وارتی تو ہو گی
سانسیں بنی تو ہوں گی خوشبو کا شامیانہ

عشاّق دست بستہ کس حال میں کھڑے تھے
اُن جالیوں کا منظر للہ ذرا دکھانا

کس کس کے آنسوؤں کی جھالر سجی ہوئی تھی
دہلیزِ مصطفیٰؐ کا کچھ حال تو سنانا

میرا سلام لے کر پہنچی تھیں جب ہوائیں
اُس وقت کیا ہوا تھا کچھ سامنے تو لانا

شہرِ نبیؐ کے سارے بچوں کا حال کیا تھا
اب تک ہے یاد مجھ کو اُن کا وہ مسکرانا

اُنؐ کی گلی سے ہو کر آئے ہو بخت والے
اب ہر گلی میں جا کر تم ٹھوکریں نہ کھانا

اس بے قرار کو بھی شاید قرار آئے
بڑھ کر ریاضؔ کو بھی اپنے گلے لگانا