مطافِ کعبہ میں درد و کرب کا موسم- کلیات نعت

مطافِ کعبہ میں درد و کرب کا موسم

(کورونا پابندیوں کی صورتحال پر)

مالکِ یوم حساب!
تیرا کعبہ
اور
جوارِ گنبدِ خضرا!
ہے لیکن روح میںپیوست
خنجر درد کا!
لفظ اوندھے مونہہ گرے ہیں
یوں لبِ اظہار پر
کرب کی پہچان بھی ممکن نہیں

دیکھتا ہوں بوجہل اور کعب بن اشرف کو ہنستے
سرحدِ آفاق پر
ان کو آئے ہے نظربربادیٔ خیر الامم
میں نے دیکھا ہے
بہت بے چین ہیں اہلِ قبور
رک گیا ہے ان کے نورِ مغفرت کا آبشار
ان کو ہے عمرہ شکن ساری وباؤں کا شعور
شاید ایسے ہی نکل آئیں گے قبروں سے تمام
رک گئی ہو جیسے اب تو
گردشِ ارض و سما
گردشِ لیل و نہار

یوں قیامت سی کھڑی ہونے کو ہے
کرب کا سورج سوا نیزے پہ ہے
بجھنے والے آسماں پر ہیں سبھی شمس و قمر
اس وبا کی کوکھ میں
اترے ہیں کوئی آسمانی فیصلے

کرۂ ارضی کسی ہیبت سے ٹکرانے کو ہے
مضمحل ہونے لگے ہیں سب پہاڑی سلسلے
ریگ بن کر اڑ رہے ہوں گے یہیں
روئی کے بے نام گالوں کی طرح

کعبے کا بے اِنس اور بے خود مطاف
گنبد خضرا کے جوئے نور میں ڈوبے ہوئے
پر
بے صدا قرب و جوار
کہہ رہے ہیں
اس وبا کی کوکھ میں ہیں آسمانی فیصلے

دم بخود ہیں التجاؤں کے ہجوم
سسکیوں کے سلسلے خاموش ہیں
جو کسک سینوں کو چیرے
اور ندامت کی گھٹاؤں کے برستے قافلے
عشق کی زنجیر میں جکڑے ہوئے سارے غلام
ضبط کی پہنائی میں معدوم ہیں
رومی و جامی
جنید و بایزید
کشتگانِ عشقِ پیغمبر سبھی
بے کل
پریشاں ہیں بہت
ایک خنجر درد کا سینے میں یوں پیوست ہے
جیسے کعبے میں ہے اتری خامشی

مالکِ یومِ حساب
تیرے وہ بندے
جنہوں نے بیچ ڈالے اپنے جان و مال
تیرے ہاتھ
جن کی آنکھوں میں ترے محبوب کی تنویر ہے
جن کی سانسوں میں
مہکتی ہے ضیائے مصطفیٰ
جن کے ہونٹوں پر جلیں
تیری ستایش کے چراغ
تیرے کعبے کی جدائی اک قیامت بن کے
وارد
جن کی ارضِ جاں پہ ہے
جن کی امیدوں سے لپٹی ہے مدینے کی ہوا
اک وبا کے سحرِ ایماں سوز سے ہیں برسر پیکار
درد عشق کی تیغِ دو دم ہے ہاتھ میں
درد کا گھاؤ اگرچہ جان لیوا ہی سہی
امت خیر الوریٰ بے جان ڈھانچہ ہی سہی

وہ جو بینا تھا
وہ پہلے کہہ گیا:
’’کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب!‘‘
ہائے یہ شرمندگی!
جن کو ہے مطلوب لیکن تیرے پیغمبر کی خوشنودی
ہے ان کی التجا!
’’سمعنا و اطعنا،
غفرانک ربنا ،
والیک المصیر‘‘

مالکِ یومِ حساب
تجھ سے اور تیرے نبی سے
پیار کرنے کا یہ کیا انجام ہے؟
میری چوٹی بھی ہے تیرے ہاتھ میں
میرے دل اور میری جاں پر بھی ہے
تیری ہی گرفت
تیرا کعبہ زندگی ہے
اور ترے محبوب کی چوکھٹ سے ہے میرا وجود
پھر مطاف کعبہ میں مخلوق کو نظارہ دے
پھر در خیر البشرؐ پر آرزؤوں کو
سر مژگاں سجا
عشق کے قلب و نظر کو لطفِ نظارہ سے
پھر مدہوش کر
بوجہل اور کعب بن اشرف کی پھیلائی وبا کو
نیست و نابود کر
پیارے مولا
ہم پہ ایسا بوجھ تو نہ ڈالیے
جو نہیں لیتے ترے کہسار بھی

o