درِ توبہ وا ہے!- کلیات نعت

درِ توبہ وا ہے!
آبلہ پا!
کربِ مسافت نہ سہی
دوریٔ منزل ہی سہی
کرب اترا ہے مگر وسعت ِصحرا کی طرح
خواب کے اجڑے ہوئے شہرِ تمنا کی طرح
کُہر میں پھسلے ہوئے، جان سے جاتے ہوئے
کوہ پیما کے ہیولیٰ کی طرح
کعبہ حُسن میں ہے عشق کی آمد ممنوع
درِ رحمت ﷺ پہ رسائی بھی بعید
دھڑکنوں کے لئے پیغامِ سکوت
آرزوؤں کے لیے حکمِ شکست
جِلد کی تہہ میں لرزتے ہوئے احساس پہ
اور
خوف میں اکڑے مساموں پہ ہے سکتہ طاری
بزمِ اظہار پہ وارد ہے جمود
میٔ غم نشّے سے محروم ہوئی
راحتوں کے لئے حسرت کا پیام
کعبۂ جاں میں فغاں ہے، نہ نوا ہے، نہ صدا
ایک سناٹا ہے گلشن میں
خزاں کی صورت
کعبۂ حُسن میں ہے عشق کی آمد ممنوع
ہو نہ ہو فیصلہ آیا یہ افلاک سے ہے

...................

.خواہشِ نفس کو اندازِ بہیمی کا شغف
حسنِ لذّات کے اصنامِ تعیّش کی عبادت کا شغف
نفس دیوی کی پرستش کا خمار
وسعتِ ارض پہ ہے
قتلِ ہابیل کا غوغائے قیامت برپا
فتنہ عاد و ثمود
ناقۂ امن کا قتل
قہرِ معیشت کا فساد
ایک انجام
کہ اترا ہے وبا کی صورت
شر کے فرعون نے پھر بول دیا
خیر پرنسل کُشی کا دھاوا
آتش و خوں کے جہنم کو سنو اور دیکھو!

.....................

کب سے بے نغمہ ہوئے سجدہ اخلاص کے تار

اُ مّتِ صاحبِ معراج ﷺ نے
توہینِ محبت کر دی

ہو کے محرومِ شعورِ ملت
خشمِ تقدیر کو للکار دیا
کیا غضب کر دیااے آبلہ پا!
کرب اترا ہے مگر وسعت صحرا کی طرح
خواب کے اجڑے ہوئے شہرِ تمنا کی طرح
کُہر میں پھسلے ہوئے،
جان سے جاتے ہوئے
کوہ پیما کے ہیولیٰ کی طرح!
ہو نہ ہو فیصلہ آیا یہ افلاک سے ہے

..................

وہ اَحَد ہے، وہ صمد ہے، وہ غنی ، وہ قادر
خالقِ قلب و نظر
فاطرِ ارض و سما
اُس سے پوشیدہ نہیں
شورشِ دل کا تلاطم ،
نہ خیانت کی نگاہ
خواہشِ نفس کو کیا سجدۂ اخلاص سے کام!
اس کی رحمت ہے مگر اس کے غضب پرفائق
تیغِ ’کن‘ نیام میں رکھ کر
ہمیں مہلت دی ہے
رحمتیں اس کے کرم کا ذمہ
اس نے ہر دکھ میں سنبھالا ہے ہمیں

....................

چشمِ سوزن رہی محرومِ تماشا لیکن
ہم نے محبوب کو جانا ہی نہیں
ہم نے محبوب کو دیکھا ہی نہیں
ہم نے دیکھی ہی نہیں آتشِ رخسارِ کرم
چشم نظارہ نہیں،
محمل لیلیٰ بھی نہیں
نہ کہیں ہجر کی شب،
نہ کہیں صبحِ وصال
قبلۂ کعبہ کہ ہے تحفۂ جانِ رحمتﷺ
آج خاموش ہے کعبے کا مطاف
وائے دربستگی کعبۂ حق
کہیں زمزم کی صراحی، نہ صفا، نہ مروہ
مالک الملک کی رحمت کے نشاں
درِ محبوب پہ جانے کا اشارہ بھی نہیں
اور یہ آنکھ جسے دید کا یارا بھی نہیں
آنکھ کی ٹھنڈک بھی گئی!
ہائے کیا نسبت ِ محبوب کی جنت بھی گئی؟
دل بھی گیا، جاں بھی گئی؟
کرب اترا ہواہے وسعتِ صحرا کی طرح
درد سورج ہے سوا نیزے پر
کیسے آشوب میں الجھا ہے نظام ہستی؟
دیکھو خالی ہے مطافِ کعبہ
ہمیں جانے کی اجازت ہی نہیں
درِ رحمتﷺ پہ کوئی چشمِ ندامت بھی نہیں
اُن ﷺکے قدمَین کی جنت میں غلاموں کی مدارت بھی نہیں
بزمِ ساقی بھی نہیں،
گردشِ جامِ لطافت بھی نہیں
ایک طوفانِ بلاخیز
مگر
دور تلک نوح کی کشتی بھی نہیں!
کرب یا آں سوئے افلاک سے اترا ہے کوئی حکمِ عذاب!
ہو نہ ہو
فیصلہ
آیا یہ افلاک سے ہے!
سمجھو لوگو!

...................

سمعِ ناقص کو ہے یہ عالمِ بالا سے پیام!
اِعْلَمُوٓاْ أَنَّ للَّہَ شَدِیدُ لْعِقَابِ
جان لواُس کا غضب
اس کی گرفت
نفخ صُور الٹ دے گا بساطِ عالم
قول حق یوں بھی تو ہے:
’’ہم نے دیکھا ہے تمہیں
روح کی گہرائی تک
تیرے ہاتھوں کی لکیروں میں ہے لکھی ہوئی سیرت تیری
تیرے سینے میں چھپے سارے راز
تیری سوچوں میں لرزتا ہوا ہر دامِ فریب
تیرے ہر حرف کے دامن میں نہاں
حق سے انکار
ہمیں معلوم ہے سب
ہم ترے ظاہر و باطن کو محیط‘‘

....................

اُس کا قانون اٹل
اُس کا ہے اعلان بلند
وَإِن تَعُودُواْ نَعُدْ
طے شدہ ساری سزائیں ہیں مری
جو بھی اقدام کرو
ہم بھی ویسا ہی کریں گے تم سے
کَدَأْبِ ء َالِ فِرْعَوْنَ
جو فراعیں سے کیا
فَضْرِبُواْ فَوْقَ لْأَعْنَاقِ
گردنیں توڑ دو ہر باطل کی
فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃ ضَنکا
حق سے اعراض پہ ہم
جام کر دیں گے معیشت سب کی
وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ لْقِیَٰمَۃِ أَعْمَیٰ
پھر بچے گا نہ بصارت نہ بصیرت، کچھ بھی
کچھ سجھائی نہیں دے گا تم کو
اور بینائی سے محروم اٹھائیں گے تمہیں
اور وہ چنگھاڑنے والی آواز
سخت برفانی ہوا،
تیز آندھی کی گرج
ہفت شب کربِ مسلسل کا عذاب
یاد ہے عاد و ثمود ؟
طے شدہ ساری سزائیں ہیں مری
فیصلے آئے یہ افلاک سے ہیں
جَآء َ لْحَقُّ وَزَہَقَ لْبَٰطِلُ
حق سے روشن ہوئے سب ارض و سما
اور عنقا شبِ باطل کا وجود
لِیُحِقَّ لْحَقَّ وَیُبْطِلَ لْبَٰطِلَ
حق توحق ہو کے رہے گا اب تو
اور باطل کا بھی ا بطال کہ طے ہے اب تو
حق کا پندارِ جنوں
شک کی دیوارکو مسمار کرے گا اب تو

کوئی ابہام نہیں
نوح سے جس نے بغاوت کی تھی
موج حائل ہوئی
اور وہ غرقاب ہوا
نوح نے بیٹا کہا تھا جس کو
حق نے اعلان کیا
حق سے انکار پہ بیٹا نہیں رہتا کوئی
کوئی ابہام نہیں

ہائے دربستگی کعبہ و روضۂ رسول
دردِ دل والو سمجھ لو اب تو!
شدّت دردمیں پنہاں یہ پیام

فیصلے آئے یہ افلاک سے ہیں
ہے کوئی ابہام اس میں؟
لینے والا ہے کوئی عالمِ نو انگڑائی!

................

پھر بھی تنفیذِ سزا سے پہلے
ایک دروازہ کھلا ہے لوگو!
گڑگڑانے کے سوا ہو نہیں سکتا کچھ بھی
ابھی
درِ توبہ وا ہے!
یہ بھی ہے احسان اُس کا!
کعبہ حُسن میں ہے عشق کی آمد ممنوع
دھڑکنوں کے لئے پیغامِ سکوت
راحتوں کے لئے حسرت کا پیام
درِ رحمت ﷺ پہ رسائی بھی بعید
فیصلے آئے یہ افلاک سے ہیں
فیصلوں میں نہیں ممکن رہی ترمیم کوئی
حق نے باطل کے لئے حکم دیا ہے لوگو!
اِس کی گردن کو اڑا دینے کا
حق نکھر جانے کو ہے
دربستگیٔ کعبہ کی طرح
اور درِ توبہ وا ہے!
کعبہ در بستہ سہی
روح میں حُزنِ محبت کی تمازت ہی سہی
چشمۂ جود و کرم سے ابھی فرقت ہی سہی
جان پر بھاری مکافات سے غفلت ہی سہی
درِ توبہ تو وا ہے لیکن!

....................

رحمتِ شافعِ محشرﷺ کے گھنے سائے میں
آو اصلاحِ خطا کی جائے
امتِ جانِ جہاں ﷺ کی خاطر
آؤبخشش کی دعا کی جائے
توڑ کر نفس کا بت
کلمۂ توحید و رسالت سے وفا کی جائے
حق کو حق مان کے
محروم کے زخموں کی دوا کی جائے
پھر سے تکریم محبت کر کے
کرب ِ بے حد سے خلاصی کی دعا کی جائے
عظمتِ نوعِ بشر کی خاطر
ظلم و عدوان کی ہر شکل مٹا دی جائے
ضربِ کاری سے
گردن قہرِ معیشت بھی اڑا دی جائے
موسمِ گل کے لئے
سبز ہواوں کے لئے
بزمِ ایثار بپا کی جائے
لینے والا ہے کوئی عالمِ نو انگڑائی
پھر پلٹ جاؤ
کہ وا ہے درِ توبہ لوگو!
پھر پلٹ جاو
درِ کعبہ بھی وا ہو جائے!
پھر چلے حبِ نبی ﷺ کا سکہ
پھر معیشت کا بھلا ہو جائے
درِ رحمت ﷺ پہ برستی ہوئی آنکھوں کو رسائی مل جائے
آبلہ پا کو
صلۂ آبلہ پائی مل جائے
سبز گنبد کی خنک چھاؤں میں
پھر گداؤں کو
حضوری میں
غلامی کی خدائی مل جائے
درِ توبہ ابھی وا ہے لوگو!
درِ توبہ ابھی وا ہے لوگو!