لائی ہے صبح خنکی بطحا ہوا بہت- کلیات نعت

لائی ہے صبح خُنکیٔ بطحا ہوا بہت
برسے گی دل پہ آج بھی کالی گھٹا بہت

گل کو مہک ہے، خار کو دستِ جفا بہت
اِس منتظر کو صبحِ پیامِ صبا بہت

دھڑکن جمالِ سیرت و قرآں بنا رہے
رہتی ہے دل میں موجزن یہ التجا بہت

چلتی رہی ہے جوئے ندامت سے نم ہوا
بھیگی ہوئی ہے آج بھی فصلِ دعا بہت

جنت کی نعمتوں کی ہیں اپنی بلندیاں
میرے لئے ہے لمسِ درِ مصطفیٰ بہت
دنیا کی نعمتیں ہیں اُسی کی عطا مگر
مجھ کو حضورِ حق میں ہے اذنِ ندا بہت

ہر سو ہے دوڑ اہلِ ہوس کی لگی ہوئی
مجھ کو ہے عزمِ کوئے حبیبؐ خدا بہت

یک دو نفس جو ہوں، وہاں جا کر گذار دوں
قدَمَینِ مصطفیٰؐ میں، یہ ہے التجا بہت

ہے کربناک اشکِ ندامت کا سلسلہ
پائی ہے ایک بھول کی میں نے سزا بہت

گھر لے کے مجھ کو خانۂ دل کر دیا عطا
رہنے لگا پھر اِس میں ہے پیارا خدا بہت

دُھلتی رہے اِسی سے مری جاں کی تیرگی
چشمانِ تر سے بہتا رہے رتجگا بہت

ملتی جو ہے مٹھاس کلامِ حبیبؐ میں
ادراک اُس کا کیجئے یا رب عطا بہت
لحنِ خدا کے نور سے ہے لحنِ مصطفیٰؐ
قرآں کے لفظ لفظ میں اس کی جِلا بہت

اِس سے سماعتوں میں اترتی ہے چاندنی
قرأت سے نور بار ہے لطفِ غِنا بہت

مجھ کو عزیزؔ کوئے مدینہ میں لے چلو
پھر سے ہے بیقراریٔ صبح و مسا بہت

پیارے نبیؐ یہ بے بس و لاچار امتی
ہے اذنِ حاضری کے لئے غمزدہ بہت

سب بندھنوں کو توڑ کر لے جائے گا مجھے
مشفق ہے، مہربان رہِ مصطفیٰؐ بہت

کچھ شک نہیں کہ اب دمِ آخر قریب ہے
دل کو بھی کھینچتا ہے درِ مصطفیٰؐ بہت

لے جائے گا بہا کے یہ ہر ایک بندھ کو
ہے قلزمِ وفورِ تمنا چڑھا بہت
وہ سانس جو کہ قبر میں لے جائے گا مجھے
اس کے جلو میں نعت کا دریا بہا بہت

بے برگ و بار، قہرِ خزاں کا نشاں تھا مَیں
گلگوں بہارِ لطفِ نبیؐ نے کیا بہت

جیسے مرے وجود کو بے جان کر گیا
آدھے قدم کا بھی ہے مجھے فاصلہ بہت

کیا عشقِ مصطفیٰؐ میں بھی ناصح کا ہے وجود؟
اس میں بھی مجھ کو سب سے بڑا ہے خدا بہت

آجر عزیزؔ نفعِ فراواں میں کھو گیا
ہے اجرِ عشقِ صحبتِ اہلِ رضا بہت

o