مرے بستر پہ مرگِ ناگہانی سو رہی ہوگی- ارض دعا

(8 اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے حوالے سے ایک نوحہ)

مری امّی سے کہنا
مری ساری کتابیں، کاپیاں
بستے میں رکھ دینا
مرے سارے کھلونے گھر کی الماری میں رکھوا کر
اسے تالا لگادینا
مری سب چاکلیٹوں، ٹافیوں کو میری جیبوں سے چھپا دینا
(مری بہنا کی گڑیا میرے کمرے میں پڑی ہوگی
وہ چپکے سے ادھر آکر نئی گڑیا سے کھیلے گی)
مرے کمرے کا دروازہ کھُلا رکھنا

مرے بلّے کو دروازے کے پیچھے سے ہٹانا مت
مرے اسکول کے بچّے
مجھے لینے اگر آئیں
مرا بلاّ، مری وکٹیں اگر مانگیں
انہیں کچھ بھی نہ دے دینا
انہیں کہنا
کسی دن مَیں اجازت لے کے جنت کے دروغے سے
ہوا کے ساتھ دستک دوں گا اپنے گھر کی کھڑکی پر

مری امی سے یہ کہنا
مرے کپڑے مرے بستر پہ رکھنا استری کرکے
مرے اسکول کی ٹائی
مرے کپڑوں پہ رکھ کر پیار سے بولیں
مرے مُنّے ادھر آؤ
مَیں بڑھ کر اپنی امی کے قدم آنکھوں پہ رکھ لوں گا
مرے اسکول کے بچوں سے یہ کہنا
مَیں آؤں گا تو سب ہمجولیوں سے مل کے کھیلوں گا

مَیں امی کے گلے میں ڈال کر بانہیں یہ پوچھوں گا
کہاں غائب ہوئی ہے آپ کے چہرے کی شادابی
یہ آنکھیں
سرخ آنکھیں
رات دن اب کیوں برستی ہیں
میں پوچھوں گا
مری امی
مرے کپڑوں کو آنکھوں سے لگاکر آپ کیوں ہر وقت روتی ہیں

مَیں ابو کے گلے میں ڈال کر بانہیں یہ پوچھوں گا
یہ کیوں ہر رقت، ابو! آپ بھی کھوئے سے رہتے ہیں
مرے ماتھے پہ بوسہ کیوں نہیں دیتے کبھی آکر
مرے کمرے کا دروازہ تو رہتا ہے کھُلا ابو!
(ہوا سرگوشیاں کرتے ہوئے اترے گی پیڑوں سے
ہوا کی اب مجھے کوئی ضرورت ہی نہیں ابو!
مرے کمرے کے اندر ہی ہوا کو دفن کردینا)
چلو، ابو! گلی میں چل کے ہمسایوں سے ملتے ہیں
(حصارِ خوف میں ہوں گی مظفر آباد کی گلیاں)

مَیں بہنا کے گلے میں ڈال کر بانہیں یہ پوچھوں گا
مری بہنا!
مری انگلی پکڑ کر تُو کبھی اسکول جاتی تھی
اکیلے ڈر نہیں لگتا؟
نہیں، ہر گز نہیں رونا
مرا وعدہ رہا تجھ سے
تری شادی کے دن دینے مبارکباد آؤں گا
ترے ہاتھوں پہ مہندی اپنے ہاتھوں سے لگاؤں گا
ترے سر پر دوپٹہ ریشمی مَیں خود سجاؤں گا
بڑے چاؤ سے پھر تجھ کو مَیں ڈولی میں بٹھاؤں گا
(تجھے رخصت دعاؤں کی خنک چھاؤں میں کرنا ہے)

مگر، شاید
کسی کو بھی خدا کی سبز جنت سے
اجازت واپسی کی دی نہیں جاتی

مری امی سے یہ کہنا
مری ساری کتابیں، ٹافیاں، کرکٹ کا ساماں اور بہنا کی نئی گڑیا
مرے ٹوٹے ہوئے سارے کھلونے
جن میں شامل ہے مرا بھالو
مرے اسکول کے بچے اگر آئیں
مرا سب کچھ مرے اسکول کے بچوں کو دے دینا

مری امی کریں وعدہ
کہ آنسو سرخ آنکھوں سے کبھی گرنے نہ پائیں گے
مرا وعدہ رہا
مَیں آپ کے خوابوں میں آؤں گا
مجھے خوابوں میں آنے کی اجازت ہے
مَیں پھر خوابوں میں جی بھر کر سنوں گا آپ کی باتیں
مرے سر پر ابھی سہرا سجانے کی تمنا ہے؟
نہیں، امی
مجھے دولہا نہیں بننا
مجھے دولہا نہیں بننا
مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں اپنے گھر کے بارے میں
مرا بستہ کہاں ہوگا؟
کتابیں پھٹ چکی ہوں گی؟
مرے کمرے کی دیواریں زمیں پر گرچکی ہوں گی
مرا اسکول بھی ملبے کے نیچے دب چکا ہوگا
مرے استاد….. میرے ہم سبق…..؟؟
نہیں، امی
مجھے دولہا نہیں بننا
مجھے دولہا نہیں بننا
مرے بستر پہ مرگِ ناگہانی سو رہی ہوگی
مرے سارے کھولنے، ٹافیاں، کرکٹ کا ساماں اور بہنا کی نئی گڑیا
کسی شہتیر کے نیچے بچاؤ کی صدائیں دے رہے ہوں گے
مگر اب تک
صدائیں بھی خلا کی وسعتوں میں کھوچکی ہوں گی
مری امی!
کفن پہنا کے مجھ کو آپ ہی دولہا بنالینا
سلامی اپنے اشکوں کی مری مردہ ہتھیلی میں تھما کر خود ہی رو لینا
مرے سر پر مرے کمرے کی مٹی کا حسیں چہرہ سجا دینا
مری آنکھوں میں سرمہ خاکِ شب کا خوب بھر دینا
مری امی
مجھے دولہا بنا ڈالیں
عروسِ شامِ غم ہے منتظر میری سرِ مقتل !