انقلاب- ارض دعا

وہ انقلاب جو بدلے گا روز و شب کا نصاب
اُس انقلاب کے قدموں کی چاپ سنتا ہوں
اُس انقلاب کو لکھتا ہوں آدمی کا ضمیر
اُس انقلاب کے دامن سے پھول چنتا ہوں

نظامِ جبرِ مسلسل ٹھہر نہیں سکتا
کبھی یہاں بھی تو یومَِ نشور آئے گا
خمیر اٹھا ہے جس کا وفا کی مٹی سے
وہ انقلابِ محبت ضرور آئے گا

یقین و عزمِ کے سینوں میں جل رہے ہیں چراغ
حصارِ خوف کی سب مشعلیں بجھا دی ہیں
ہوائے ساحلِ شب سے کہے کوئی جاکر
سپاہِ عشق نے اب کشتیاں جلا دی ہیں

لبِ عروسِ شہادت سے یہ صدا نکلے
سروں پہ سرخ لہو کا کفن سجانا ہے
اٹھا کے ہاتھ میں روشن صداقتوں کا علم
ریاضؔ قتل گہِ کربلا میں جانا ہے