کوئی نسبت نہ رکھتے شعر طیبہ سے اگر میرے- نصابِ غلامی (2019)

کوئی نسبت نہ رکھتے شعر، طیبہ سے اگر میرے
کہاں ہوتے حوالے زندگی کے معتبر میرے

کئی دن سے صبا اور خوشبوئیں واپس نہیں لوٹیں
کہیں رستے میں رک جاتے ہیں شاید نامہ بر میرے

ہر اک ذرّے کو آدابِ سحرگاہی سکھاتے ہیں
بہت مصروف رہتے ہیں اِدھر قلب و نظر میرے

میں ہر لمحے کے ہاتھوں پر ثنا کے پھول رکھتا ہوں
قلم کے روبرو ہیں آج بھی شام و سحر میرے

انہی ﷺ کے ذکر سے قائم بھرم ہے میرا محفل میں
انہی ﷺ کے ذکر سے مہکیں چمن زارِ ہنر میرے

مدینے کا پتہ مت پوچھتے پھرنا ہواؤں سے
جلیں گے آندھیوں میں بھی چراغِ رہگذر میرے
مریضِ عشق کی تو آرزو ہی مختصر سی ہے
مجھے طیبہ میں لے جائیں کسی دن چارہ گر میرے

قیامِ حشر تک سایہ کریں گے ہر مسافر پر
مضافاتِ مدینہ میں اگیں یارب شجر میرے

میں اڑنے کا ہنر بھی بھول بیٹھا ہوں مدینے میں
ہوا نے باندھ رکھے ہیںادب سے بال و پر میرے

سنہری جالیوں کو چومنے سے قبل لازم ہے
نمِ ہجراں سے آنکھیں باوضو ہوں، ہمسفر میرے

مدینے کی فضاؤں نے غنی ہے کر دیا مجھ کو
گہر بکھرے ہوئے ہیں ہر طرف اے چشمِ تر، میرے

جوارِ گنبدِ خضرا میں رہتے ہیں تر و تازہ
کبھی باہر سے بھی سوکھے نہیں برگ و ثمر میرے

مدینے اور مکے کے علاوہ میں کہاں جاتا
ریاضؔ، احوال ہیں عمرِ رواں کے مختصر میرے