سجدہ ریزی ہو مرے اشکِ ندامت کی قبول- دبستان نو (2016)

اپنے اندر کے خلاؤں میں بھٹکتا ہی رہوں
تُو دکھا مجھ کو حجازِ مصطفیٰؐ کا راستہ
دے مجھے توفیق بن کے پیکرِ عجز و نیاز
ملتزم پہ گرم اشکوں کے سجا دوں آفتاب
ہَے ترے در پر مری بھی التجاؤں کا ہجوم
دے مجھے اذنِ ثنا کی روشنی کے سبز تھال
دے رسولِؐ اوّل و آخر کے قدموں کی دھنک
دے مجھے خلدِ مدینہ کی ہواؤں کا گداز
اِس ادھوری ذات کو تسخیر کرنا بھی سکھا
میرے احوالِ پریشاں پر کرم کی بارشیں
عاجزی کے سرخ پیراہن ہوں میرے جسم پر
توڑ دے قَصرِ اَنا کے ہر دریچے کو ریاضؔ!
تُو ابھی اوہام سے دامن چھڑا پایا نہیں
تُو کتابِ عشق کے اوراق پہ رکھ دے قلم
حرفِ تابندہ ہو تیری دسترس میں آج بھی
سرحدوں سے پاک تیری سلطنت ہَے، یاخدا!
اور لا محدود ہَے تیری خدائی کا نظام
اوّل و آخر ہَے تیری ذات ربِّ مصطفیٰؐ!
آپؐ ہیں ختم الرسل اور آپؐ توقیرِ بشر
حرفِ آخر ہیں کتابِ عشق کا میرے حضورؐ
رحمتِ عالمؐ بنا کر جن کو ہَے بھیجا گیا
پیکرِ جود و سخاؐ ہیں، پیکرِ لطف و عطاؐ
سب علومِ نو ہیں خیراتِ رسولِ محتشمؐ
امن کا پرچم ہَے دستِ سیّدِ کونینؐ میں
ہے قلم پر آپؐ کی نگہِ محبت آج بھی
آج بھی دستِ صبا پر مَیں نے رکھّے ہیں چراغ
یا خدا! میرے چراغوں کو ملے آبِ حیات
روشنی میرے پیمبرؐ کی رہے گھر میں مقیم
ہر مصّلے پر مرے سجدوں کی پھوٹے چاندنی
بندگی کے نور سے روشن رہے میری جبیں
تُو چراغوں کو جلانے کا مجھے منصب بھی دے
رات رکھتی ہے مرے جلتے چراغوں سے عناد
آدمی کب تک اندھیروں میں بھٹکتا ہی رہے
میرے سر پر ہیں گناہوں کی ہزاروں گٹھڑیاں
خوف کی چادر میں ہیں سانسیں مری لپٹی ہوئی
لوگ دیواروں میں در رکھنے کے عادی ہیں کہاں
گھر میں پتھرائی ہوئی آنکھیں در و دیوار کی
اپنے گھر میں کاٹ لوں گا مَیں نظر بندی کے دن
بندگی کے ہر تقاضے کو بُھلا بیٹھا ہوں مَیں
بخش دے لوح و قلم کی ہمنشینی کا شرف
لائقِ تعزیر ہیں سب منحرف چہرے مرے
کیا منافق ساعتوں سے مَیں نے سمجھوتہ کیا؟
یا الٰہی، مستقل سایہ فگن ہوں رحمتیں
شاھدِ عادل ہَے تیری ذات اے ربِّ کریم!
گریہ و زاری مرے اشکوں کی بھی کر لے قبول
دامنِ صد چاک میں سکیّ گریں انوار کے
بے بسی کے زرد پانی میں اترنے سے بچا
کیا سرِ بازار بِک جاتا ہے لوگوں کا ضمیر؟
یا خدا! تیرے سوا جھکنا نہیں آتا مجھے
جھوٹ لکھنے سے قلم انکار کر دے گا مرا
بے ضمیری اس کی فطرت میں نہیں رکّھی گئی
یہ فقط تیرا کرم ہَے یا خدا! تیرا کرم
رکھ تپش آمادہ میرے خون کی گردش کو تُو

گمرہی کی میرے دامن میں پڑی رہتی ہَے دھول
سجدہ ریزی ہو مرے اشکِ ندامت کی قبول