خدایا! اپنی رحمت کے دریچوں کو کھُلا رکھنا- دبستان نو (2016)

تری توحید کی تفہیم اور مجھ سا تہی دامن
تصوُّر میں تری ذاتِ مقدّس کیا سمائے گی
ریاضِ بے نوا تو عجز کے پیراہنوں میں ہے
قلم جس کا ہمیشہ حالتِ سجدہ میں رہتا ہے
جسے تاریک شب سے واسطہ ہَے ایک مدت سے
کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
ندامت کے ہزاروں اشک لپٹے ہیں قلمداں سے
مجھے محرومیوں کی آج بھی دیمک نے چاٹا ہے
قبیلہ میرا بھی جھوٹی اَنا کا ہمسفر ٹھہرا
خدایا! اپنی رحمت کے دریچوں کو کھُلا رکھنا
مری بستی کے سب پیر و جواں ہیں نیند میںکب سے
انہیں معلوم ہو یارب! درندے ان کی بستی کے
گلی کوچوں میں پھرتے ہیں تلاشِ رزق کی خاطر
حصارِ خوف میں سمٹے ہوئے بستی کے باشندے
لرزتے ہاتھ ہونٹوں پر سجا کر مطمئن سے ہیں
کبھی ہوں تازیانوں کی مسلسل بارشیں اِن پر
کبھی احساس کی کوئی کرن پھوٹے دل و جاں سے
ریاضِ بے نوا تو عجز کے پیراہنوں میں ہَے
ہمیں اپنی اکائی کے تحفّظ کا سلیقہ دے
رگوں میں منحمد ہَے خوں، حرارت دے، روانی دے!
ہمیں بچّوں کے مستقبل کو بھی محفوظ کرنا ہے
ہمارے سرد ہاتھوں میں ہزاروں بجلیاں دے دے
سبق غیرت کا ازبر ہو ہمارے نوجوانوں کو
ہمیں سرکارِ دو عالمؐ کا ہر نقشِ قدم دے کر
صراطِ عشق پر ہر حال میں تُو گامزن رکھنا

ہمیں محبوبؐ کے قدموں کی اترن کے ستارے دے
جزیرے عافیت کے، امن کے دونوں کنارے دے