پسِ غروبِ سحر کھڑا ہے بجھا بجھا سا غلام اُنؐ کا- زر معتبر (1995)

پسِ غروبِ سحر کھڑا ہے بُجھا بُجھا سا غلام اُنؐ کا
اداس لمحوں میں کاش آئے بہار لے کر پیام اُنؐ کا

منافقت کی وبا میں چیچک زدہ ہے ہر آدمی کا چہرہ
مگر خدا نے کہا یہ مجھ سے لقب ہے خیرالانام اُنؐ کا

تھکی ہوئی ساعتوں نے آنچل میں بھر لیے ہیں گلاب تازہ
لُٹی ہوئی منزلوں سے کہہ دو، مرا اثاثہ ہے نام اُنؐ کا

فصیلِ شہرِ بدن اُٹھا کر کہاں کہاں میں پھرا نہیں ہوں
بنا تو آسودگی کا باعث بنا ہے بیت الحرام اُنؐ کا

وہی سکُوں کی ردا بھی دیں گے شمیمِ خلدِ سخا بھی دیں گے
غلام زادوں کی بستیوں میں کرم رہے گا مدام اُنؐ کا

زمینِ مکّہ سے جا کے پوچھو، حدودِ طائف میں جا کے دیکھو
مثالِ انجم چمک رہا ہے عدو سے بھی انتقام اُنؐ کا

سحابِ رحمت ازل سے سایہ فگن ہے تپتی ہوئی زمیں پر
جبینِ ارض و سما پہ روشن رہے گا نقشِ دوام اُنؐ کا

مرا مقدّر مَیں ہر اندھیرے کی دسترس سے رہا ہوں باہر
ہے روزِ اوّل سے میری آنکھوں میں ثبت ماہِ تمام اُنؐ کا

عُلوم و فن کے وہی ہیں پیکر صداقتوں کے وہی ہیں مظہر
تمدنوں کے لیے ابد تک ہے حرفِ آخر نظام اُنؐ کا

کرے نہ کیوں پھر قلم بھی میرا سجود سادہ ورق پہ اُنؐ کو
خدا سکھاتا ہے اپنے بندوں کو روز و شب احترام اُنؐ کا

ریاضؔ سدرہ بھی ڈھونڈتی ہے غبارِ نقشِ کفِ محمدؐ
نہیں یہ ممکن، کسی کی فکرِ رسا میں آئے مقام اُنؐ کا