ہجوم لوحِ ثنا پر ہیں ماہ و اختر کے- زم زم عشق (2015)

ہجوم، لوحِ ثنا پر ہیں، ماہ و اختر کے
ہزار سبز پرندے اڑیں گے عنبر کے

کرم، خلوص، شفاعت، شرف، دعا، رحمت
یہ رنگ ہیں اُسی جود و سخا کے پیکر کے

ہوائے تند نے بستی کو گھیر رکھّا ہے
بجھے بجھے سے دیے ہیں تمام منظر کے

چراغ، پھول، دھنک، روشنی، قلم، آنسو
شریک نعت نگاری میں ہیں برابر کے

سناؤں قلبِ منّور کی داستاں کس کو
تمام لوگ بنے ہیں، حضور ؐ پتھر کے

ہزار اٹھتے رہیں گے جہان میں طوفاں
چراغ جلتے رہے ہیں مرے پیمبر ؐ کے

ہوا ہَے کب سے مقفل مکاں کا دروازہ
الجھ پڑے تھے ستارے مرے مقدر کے

میَں روزِ حَش ر بھی مقروض ہی رہوں اُس کا
چراغ جس نے جلائے ہیں میرے اندر کے

درخت راکھ میں تبدیل ہوگئے لیکن
کِھلے ہوئے ہیں کئی پھول سنگِ مر مر کے

حضور ؐ، کمروں میں چپ چپ کھڑی ہَے تاریکی
سیاہ پوش ہیں دیوار و در بھی باہر کے

برس پڑا مری کاغذ کی گیلی کشتی پر
ریاضؔ دیکھ لئے حوصلے سمندر کے