چل پڑی ہے شہرِ ناپرساں میں نفرت کی ہوا- زم زم عشق (2015)

چل پڑی ہَے شہرِ نا پرساں میں نفرت کی ہوا
یا نبی ؐ، اپنے غلاموں کی کریں سنگت عطا

میرے اوراقِ دل و جاں پر کِھلیں مدحت کے پھول
میرے کشکولِ طلب میں اَن گنت حرفِ ثنا

ہاتھ خالی ہیں قلم کے اے مرے ربِّ کریم
سرورِ کونین ؐ کی مدحت کے دے ارض و سما

پھر بلاوا آئے گا خلدِ مدینہ سے مجھے
رقص میں رہتے ہیں ہونٹوں پر حروفِ التجا

آبخورے تشنہ لب ہیں ایک مدت سے، حضور ؐ
ارضِ پاکستان پر برسے محبت کی گھٹا

خوشبوؤں کے ہاتھ پر رکھ دے توُ طیبہ کی دھنک
آپ ؐ کی چوکھٹ کا منظر پھر مجھے یا رب! دکھا

شکریہ بادِ صبا! تیرا بہت ہی شکریہ
خلدِ طیبہ سے اٹھا لائی ہے تُو خاکِ شفا

کل جسے دی تھی غلامی کی سند آقا حضور ؐ
آج بھی در پر کھڑا ہَے وہ غلامِ خوشنوا

امتِ مظلوم کس جنگل میں کھو جائے، حضور ؐ
کربلا سی کربلا ہَے، کربلا سی کربلا!

یا خدا! چھاؤں خنک، برگد کی دے آسودگی
یا خدا! ٹوٹے مری بستی میں ہر قصرِ انا

ایک ہم ہی عِلْم کی مشعل سے کوسوں دور ہیں
لفظِ اقرا سے ہَے روشن آج بھی غارِ حرا

آبِ زم زم اور کھجوریں بعد میں لے گا ریاضؔ
توُ اسے احوالِ شہرِ مصطفیٰ ؐ پہلے سنا