چمن زارِ ثنا میں خوشبوؤں کے سبز جھونکے ہیں- زم زم عشق (2015)

چمن زارِ ثنا میں خوشبوؤں کے سبز جھونکے ہیں
مصلّے پر نگاہِ باوضو کے لاکھ سجدے ہیں

بیاضِ نعت کے اوراق الٹے ہیں ہواؤں نے
مری کشتِ تمنا میں بہت سے پھول مہکے ہیں

ہوائے خلدِ طیبہ نے کہا اے خوشنوا شاعر
مقدر میں ترے اب کے برس بھی چاند لمحے ہیں

مبارک باد دو لوگو! گجر دم ہم تصّوُر میں
سلامی کے لئے سرکار ؐ کی چوکھٹ پہ جاتے ہیں

ہزاروں آرزوئیں خواب میں تکمیل پاتی ہیں
کبوتر بن کے طیبہ کی فضا میں ہم نکلتے ہیں

بچھی ہوتی ہَے پہلے ہی سے چشمِ منتظِر میری
مدینے کے مسافر جن بھی راہوں سے گذرتے ہیں

کروڑوں خوش نصیبوں میں مرا یہ نام شامل ہے
فضائے خلدِ طیبہ میں مرے بھی اشک بکھرے ہیں

در و دیوارِ طیبہ پر ادب سے روشنی اترے
فرشتے سب ثنا کرتے ہوئے روضے پہ آتے ہیں

کبھی دیوار میں در ہی نہیں رکھتے چمن والے
کئی صدیوں سے ہم تازہ ہواؤں کو ترستے ہیں

دیے ہم کو جلانے کا ہنر آتا نہیں لیکن
نبی جی ؐ، ہم ہواؤں سے ہمیشہ ہی الجھتے ہیں

ہر اک ذرّے میں لاکھوں دل دھڑکتے ہیں غلاموں کے
ستارے آسماں پر کیف کے عالم میں ڈوبے ہیں

ہر اک نقشِ قدم سرکار ؐ کا گلیوں میں روشن ہے
مدینے کے محلّے نور و نکہت کے جزیرے ہیں

مدینے کا حسیں خطّہ ازل سے محترم ٹھہرا
ادب سے بادلوں کے قافلے آکر برستے ہیں

کہیں سے بھی کرن امید کی پھوٹی نہیں آق ؐ
غبارِ شام میں ڈوبے ہوئے میرے قبیلے ہیں

کسی بھی رہنما کی غیرتِ ملّی نہیں جاگی
لئے کشکول ہم غیروں سے در در بھیک لیتے ہیں

خدایا! یہ برس بھی مدحتِ سرکار ؐ میں گذرے
قلم نے التجا کے پھول ہر تختی پہ لکھّے ہیں

ندامت کے پسینے میں ہیں ہم ڈوبے ہوئے آق ؐ
غبارِ فتنہ و شر میں مسلمانوں کے خطّے ہیں

بُھلا بیٹھے ہیں ہم تاریخ میں کردارِ حیدرؓ کو
ہوا دستک بھی دے تو، یانبی ؐ، ہم ڈرنے لگتے ہیں

تشخص کھوچکے جھوٹی انا کے ریگ زاروں میں
فریموں میں ادھورے عکس کے مانند رہتے ہیں

کوئی ردِ عمل ہوتا نہیں یلغارِ ظلمت پر
ہدف ہم اہلِ شر کا کتنی آسانی سے بنتے ہیں

اڑائے پھرتی ہَے آندھی پریشاں حال امت کو
ریاضِؔ کمتریں ہم تو فقط کاغذ کے پرزے ہیں