قلم کی بھی سن التجا میرے مولا!- لامحدود (2017)

بپا ہے بپا کربلا، میرے مولا!
مَیں سر تا قدم ہوں دعا، میرے مولا!

قیامت کا منظر ہے ارضِ وطن میں
کرم کی چلے پھر ہوا، میرے مولا!

برہنہ یہ لاشیں کفن مانگتی ہیں
ہوئی صبر کی انتہا، میرے مولا!

ہوا بین کرتے ہوئے رو رہی ہے
غضب کا ہے ہر مرحلہ میرے مولا!

تمدن کا چہرہ کھنڈر بن گیا ہے
ہے ماتم کناں اب فضا، میرے مولا!

دیے جلتے جلتے سبھی بجھ گئے ہیں
مجھے روشنی پھر دکھا، میرے مولا!

جو ملبے کے نیچے ابھی تک دبی ہیں
وہ سب بستیاں پھر بسا، میرے مولا!

المناک زیرِ زمیں زلزلوں سے
در و بام میرے بچا، میرے مولا!

وہ رعنائیاں اب کہاں کھو گئی ہیں
دھواں ہی دھواں ہے فضا میرے مولا!

گرے جن کے گھر اُن مکینوں کو اپنے
کرم کی ردا میں چھپا، میرے مولا!

وہ ننھے فرشتے کہاں کھو گئے ہیں
ہیں سکتے میں ارض و سما، میرے مولا!

جو مکتب میں کھولے ہوئے تھے کتابیں
کہاں اُنؐ کے ہیں نقشِ پا، میرے مولا!

کھلونے ہیں خود منتظر جس کے، گھر میں
وہ بچہ کہاں کھو گیا، میرے مولا!

جو زندہ بچے لوگ اُن کے سروں پر
مسلسل کھڑی ہے قضا، میرے مولا!

زمیں میری زخموں میں لپٹی ہوئی ہے
ملے اس کو خاکِ شفا، میرے مولا!

کٹورے ہیں ٹوٹے ہوئے آنگنوں میں
کبھی بھیج آبِ بقا، میرے مولا!

کتابوں کے اوراق بکھرے پڑے ہیں
لہو سے ہے تر حاشیہ، میرے مولا!

ورق پر ہے اشکِ رواں کا سمندر
قلم کی بھی سن التجا، میرے مولا!

مری سر زمینِ وطن سے کسی دن
مصائب کا ہو انخلا، میرے مولا!

کمائی مجھے خوں پسینے کی دینا
سلامت رہیں دست و پا، میرے مولا!

برہنہ سروں پر شبِ ابتلا میں
کرم کی کرم کی ردا، میرے مولا!

وہ ماں جس کے بچّے ہیں دستِ قضا میں
عطا کر اسے حوصلہ، میرے مولا!

شفق رنگ اجلی فضائے وطن میں
پرندے ہوں پھر پر کشا، میرے مولا!

ملا دے عزیزوں کو اپنے کرم سے
ہے بھائی سے بھائی جدا، میرے مولا!

اتر آئے پھر روشنی منظروں میں
دعا ہے دعا ہے دعا، میرے مولا!

نبی جیؐ کے قدموں کا صدقہ عطا ہو
ترا ہے فقط آسرا، میرے مولا!

ہوس دشت و صحرا میں لائی ہے مجھ کو
مدینے کا رستہ دکھا، میرے مولا!

مری چشمِ تر سر بسجدہ ہے کب سے
ملے مجھ کو کلکِ رضاؒ، میرے مولا!

ترے در سے سوز و گدازِ جبیں کا
نہ ٹوٹے کبھی رابطہ، میرے مولا!

فقط تیرے فضل و کرم سے کٹے گی
مری یہ شبِ ناروا، میرے مولا!

مَیں موجِ حوادث سے کب تک لڑوں گا
کنارے پہ کشتی لگا، میرے مولا!

مسائل میں الجھے ہوئے ہر بشر کا
فقط تُو ہے حاجت روا، میرے مولا!

مَیں خود کو بھی پہچان کر کیا کروں گا
مجھے آئنوں سے بچا، میرے مولا!

لرزتے ہیں پلکوں پہ اشکوں کے موتی
ریاضؔ آج ہے بے نوا، میرے مولا!

ریاضؔ اپنے سر کو جھکائے ہوئے ہے
اِسی میں ہے تیری رضا، میرے مولا!