رہتا ہے عطاؤں کے جھرمٹ میں قلم اس کا- لامحدود (2017)

امید کی کشتی کو ساحل بھی دکھائے گا
ہر شام کے ہاتھوں پر وہ دیب جلائے گا
ہر شاخِ برہنہ پر وہ پھول کھلائے گا
ہر شخص کے دامن کو گلزار بنائے گا
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے

رحمت کی گھٹائوں کو وہ اذنِ سفر دے گا
کشکولِ تمنا میں لاکھوں وہ گہر دے گا
اِس رات اندھیری میں قندیلِ قمر دے گا
وہ علم کے طالب کو خود راہ گذر دے گا
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے
اک پل بھی نہیں رکتا، دریائے کرم اُس کا
رہتا ہے عطائوں کے جھرمٹ میں قلم اُس کا
ہر بابِ دعا اُس کا، ہر بابِ حرم اُس کا
ہر ملکِ عرب اُس کا، ہر ملکِ عجم اُس کا
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے

موجود وہ ہوتا ہے ہر سینے کی دھڑکن میں
صحرائے حوادث میں، ہر بستی کے آنگن میں
وہ رنگ لٹاتا ہے اجڑے ہوئے گلشن میں
خوشبو بھی سجاتا ہے ہر پھول کے دامن میں
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے

آفاق کے چہرے پر وہ چاند سجاتا ہے
مٹی کے سمندر سے خورشید اگاتا ہے
کاغذ کی بھی کشتی کو وہ پار لگاتا ہے
ہر ایک مسافر کو وہ راہ دکھاتا ہے
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے
رحمت کی گھٹا تیرے گلشن میں بھی آئے گی
اِس دھوپ کی چادر کو برفاب بنائے گی
ہر نقش اداسی کا ماتھے سے مٹائے گی
موسم ترے اندر کا شاداب بتائے گی
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے

امواج بھی سرکش ہیں اور دور کنارا ہے
اللہ کے بندوں نے اللہ کو پکارا ہے
دکھ درد کے لمحوں میں اک اُس کا سہارا ہے
خالق بھی ہمارا ہے، رازق بھی ہمارا ہے
اُس خالق و مالک کی تُو شانِ کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے

ہر ٹوٹے ہوئے دل کو وہ ا برِ سکوں دے گا
ناکارہ سے انساں کو محنت کا جنوں دے گا
افکارِ پریشاں میں کب حالِ زبوں دے گا
سرکارؐ کی امت کو انوارِ دروں دے گا
اُس خالق و مالک کی تُو شان کریمی سے
مایوس نہ ہو بندے
مایوس نہ ہو بندے