قاتلوں کے سر نہیں ہوں گے قلم اب کے برس- لامحدود (2017)

ہم رواں ہیں جانبِ ملکِ عدم اب کے برس
خود کشی کے بام و در پر ہیں قدم، اب کے برس

ہر طرف پتھر کی دیواروں پہ سجدوں کے نشاں
ہر طرف خنجر بکف لاکھوں صنم، اب کے برس

رسم چل نکلی ہے آنکھیں بند رکھنے کی، مگر
سامنے دیوار پر کیا ہے رقم، اب کے برس

سیلِ تند و تیز میں گرتے ہوئے پکے مکاں
دکھ کے کس گہرے سمندر میں ہیں ہم، اب کے برس

کس قدر گہرا ہے زخموں کا الائو جسم پر
کس قدر گہرا ہے محرومی کا غم، اب کے برس

پوچھتے پھرتے ہیں اہلِ کارواں اشجار سے
خوف کا سیلِ رواں جائے گا تھم، اب کے برس؟

اس برس بھی ہم گرفتِ ناروا میں ہیں، خدا!
صحنِ مقتل میں ہوئے کتنے ستم، اب کے برس

حوصلہ سب ہار بیٹھیں گے کھُلے میدان میں
دل شکستہ ہیں، کھُلیں گے کیا علَم، اب کے برس

یا خدا! تُو ہی بتا، جائیں کدھر؟ ہم بے ہنر
ہر برہنہ سر پہ ہے شامِ الم، اب کے برس

آسماں سے عافیت کی بارشیں اتریں بہت
کسمپرسی میں ہیں ہم اہلِ حرم، اب کے برس

یا خدا! فریاد سن، فریاد سن، فریاد سن
کہہ رہا ہے داستاں آنکھوں کا نم، اب کے برس

قصرِ شاہی سے ہوا ہے حکم یہ جاری ریاضؔ
قاتلوں کے سر نہیں ہونگے قلم، ابر کے برس