خوشبو کے انتظار میں ہر رہگذر رہی- لامحدود (2017)

دستِ طلب اٹھائے ہوئے در بدر رہی
عمرِ رواں عذاب میں شام و سحر رہی

اتنے عمل سیاہ ہیں مجھ رو سیاہ کے
بستی دل و نظر کی کھنڈر کی کھنڈر رہی

کتنی ہی التجائوں کے روشن رکھے چراغ
سجدے میں آج بھی ہے مری چشمِ تر رہی

غیروں نے چھین لی ہے متاعِ قلم، مگر
امت ترے رسولؐ کی ہے بے خبر رہی

زندہ دلی ہماری ترے اس جہان میں
غربت کے خار زار میں صرفِ نظر رہی

جس شب ہزار سنگ گرے آسمان سے
تیرے کرم سے وہ بھی بڑی مختصر رہی

شاید یقیں کے نام سے واقف نہیں کوئی
تدبیر جو بھی کی ہے وہی بے اثر رہی

گرد و غبارِ شامِ غریباں کی دھول میں
خوشبو کے انتظار میں ہر رہگذر رہی

جھوٹے خدا رہے ہیں مسلط زمین پر
آدم کی نسل اس لئے بے بال و پر رہی

عرشِ بریں پہ پہنچے گی یہ ایک دن ضرور
ہر چیخ لب کشا جو مری رات بھر رہی

میرے تمام بند دریچوں کو کھول کر
یارب! ترے کرم کی گھٹا ہمسفر رہی

واجب ہے شکر ہر گھڑی پروردگار کا
شاخِ ثنا ریاضؔ کبھی بے ثمر رہی؟