ترتیب- لامحدود (2017)

اظہاریہ

’’لا محدود‘‘ کی رمز اظہار (شیخ عبد العزیز دباغ)

دو حمدیہ

خدا ہے، مالک و مختار ہے، ارض و سما دے گا
پادشاہی ہے تری سب سرحدوں سے ماورا

لامحدود

قادرِ مطلق! تری ہی ذات لامحدودہے
ترے ہی قبضۂ قدرت میں ہر اک سانس ہے میری
ہر نوا، ہر ضابطہ، ہر التجا سجدے میں ہے
کون قندیلوں سے بھر دیتا ہے دامانِ سخن
اپنے بندوں کے لئے جائے اماں بھی ہے وہی
اے خدا میرے وطن میں امن کی پُروا چلے
امتِ مضطر کا مجھ کو نوحہ گر کس نے کیا
کب مرے اندر کا انساں رات بھر رویا نہیں
مطافِ مدحت میں سانس لینا مرا مقدر بنادے یارب!
چاند لمحوں سے رہے معمور انسانی ضمیر
لب پہ حرفِ التجا ہے اے خدائے ذوالجلال
چمن میں ہر پرندے کے لئے اک آشیاں اترے
قفس میں ہر پرندے پر ہزاروں بال و پر برسے
تُو مکتب کے قلمداں پر مرے مولا! کرم کرنا
ذوقِ سفر دیا ہے تو اب بال و پر بھی دے
دستِ قلم کو وصفِ صورت گری عطا کر
اپنے لاشے ازل سے اٹھائے ہوئے
ورائے حمد تیری ذات ہے لکھّوں تو کیا لکھّوں
کتابِ آرزو کا ہر ورق ہے لب کشا، لکھنا
ہوس کی آگ کو گوٹھوں گرائوں سے پرے رکھنا
یا خدا! اترے مری بستی کے پیڑوں پر بہار
مَیں ہر حرفِ دعا میں ہوں، الہٰیکر مدد میری
مَیں اٹھا کر جسم کی بنجر زمیں جائوں کہاں؟
ہر ہر دعا قبول ہو رحمانِ مصطفی
میرے ہونٹوں کے مصلّے پر بچھے حرفِ دعا
چٹانیں بھی آیات تیری پڑھیں گی
ترے محبوبؐ کا شاعر تری چوکھٹ پہ آیا ہے
دھنک کو یہ کس نے مصَّور کیا ہے
قلم کے ان گنت آنسو دعا کے پیرہن میں ہیں
مالکِ آسماں، رازقِ انس و جاں
حرفِ دانش بھی تحریرِ مبہم میں ہے
تیری رحمت ہر مصیبت سے دلاتی ہے نجات
تو ربِّ کائنات ہے مَیں بندہ حقیر
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
وہ خدا ہے کل جہانوں کا ہے وہ پروردگار
یارب! عطا ہوں مجھ کو بھی صبر و رضا کے پھول
یقینا ملیں گی ہمیں چاند راتیں
کون و مکاں کے مالک و مختار المدد
مجھے آسودہ لمحوں کی بشارت کون دیتا ہے
بھیگتی رہتی ہے اشکوں سے کتاب روز و شب
پرسانِ حال میرا کوئی نہیں جہاں میں
رکھ سلامت میری بستی کے در و دیوار کو
وہ جو ہے میرے تصوُّر میری سوچوں سے بلند
یارب! مجھے چراغ جلانے کا دے ہنر
عظمتِ رفتہ کو بھی ڈھونڈوں تو مَیں ڈھونڈوں کہاں
ہوں گی توحید و رسالت کی مسلسل بارشیں
نہیں اب مصرعِ تر سوجھتا زندہ مسائل میں
درِ حضورؐ پہ جاکر خدا سے مانگیں گے
مجھ کو پاکیزہ لمحوں کی چادر ملے
آنسوئوں کو ضبط کرنے کا ہنر بھی دے مجھے
ہیں بندگی کی میرے مصلّے پہ تتلیاں
پڑھوں اخبار مَیں جو بھی پڑھوں مولا! خبر روشن
سکّے کرم کے عرشِ معلی سے بھی گرا
تیرا کمزور سا ایک بندہ ہوں مَیں
تنگ دستی میں بھی ہم شکرِ خدا کرتے رہے
کوئی نہیں تو ماں کی دعائوں میں رکھ مجھے
میرے اسلوبِ ندامت کو ملے اذنِ سفر
روشنی یا خدا! میرے اندر بھی ہو
خوشبو کے انتظار میں ہر رہگذر رہی
سرکارؐ کی گلیوں کا از بر ہو مجھے رستہ
جمہورِ باشعور کا قائم ہو اقتدار
دے مجھے آبِ خنک، آبِ رواں، آبِ شفا
حرفِ غلط رقم ہے مکتب کی تختیوں پر
گندم اگادے میرے اس ہاتھ پر خدایا!
کربلا کے بعد پھر ہے کربلا کا سامنا
میرے مالک! مجھے قلبِ بیدار دے
قاتلوں کے سر نہیں ہوں گے قلم اب کے برس
خوشبوئوں کو منصب نامہ بری تُو نے دیا
جو مشکیزوں میں پانی ہے اُسے آبِ شفا کر دے
یا خدا تاریکیاں مٹ جائیں ارض پاک سے
محشر تلک رہے گی خلائوں میں روشنی
زندہ ضمیر سے ہو ملاقات اے خدا!
رہتا ہے عطائوں کے جھرمٹ میں قلم اس کا
پھول لاتی ہے ہمیشہ آخرِ شب کی دعا
آبخورے قلم کے بھریں روز و شب
تصوُّر میں غارِ حرائے کرم ہو
پڑے ہر قدم پر مودت کا سایہ
عطا ہو میری محرومی کے زخموں کو شفایابی
دا مانِ آرزو میں ستارے کریں قیام
مرے خدا! تُو مرے رزق میں اضافہ کر
صبر کی توفیق بھی میرے خدا دیتا ہے تُو
مرے بچوں کو بھی تازہ ہوائوں کی ضرورت ہے
باشندگانِ ارضِ وطن کی خطا معاف
قلم کی بھی سن التجا میرے مولا!
یا الہٰی! ان گنت امراض میں ہوں مبتلا
آج بھی ممکن بنا حرفِ دعا کی واپسی
صبا کے ہاتھ پر پھولوں نے تمجید خدا لکھّی

قطعات

ہر کسی جھوٹے خدا کو مانتے ہیں کب ریاض
مَیں گرفتِ ناروائے شب میں ہوں میرے خدا!
یا خدا! دجل و فریب و جَبر سے مجھ کو بچا
مولا! ہزار قرض کی ہیں سر پر گٹھڑیاں
بھیگی ہوئی وطن کی ہوائیں قبول کر
کشتِ جاں میں آنسوئوں کے خواب مَیں بوتا رہا
سیّدِ ساداتؐ کے صدقے میں تُو نے یا خدا!
خدا کا شکر ہے اُس نے ثنا گوئی کی دولت دی
خدا ہے خالق و مالک خدا ہے ربِّ جہاں
جو برستی ہی رہے تو وہ مجھے برسات دے
برہنہ سر ہے، ا سکے سر پہ دستارِ حرم رکھ دے
یا خدا! بدلے شہنشاہوں کا فرسودہ نظام
یارب! کرم کی بارشیں بے حد و بے حساب
تیری ہر نعت پہ ہوں حرفِ تشکر کی طرح
قیامت ہی قیامت ہر طرف برپا ہے آنگن میں
دعا ہے اپنے خدا سے میری
گردو غبارِ شام مرے سر سے بھی ٹلے
خدائے آسماں اب کے برس اذنِ ثنا دینا
یارب! ثنا کے پھول کھلیں گھر میں ہر طرف
اپنے بیٹے کے لئے یارب! ہے میری التجا
قیامِ امن کی سب فاختائیں تُو عطا کرنا
زندگی کے آخری دن ہیں رہوں محوِ ثنا

ثلاثی

تری توفیق سے اے قادرِ مطلق! دمِ رخصت
تری حاجت روائی کا تسلسل ہے مجھے حاصل
اندھیروں کے سوا کچھ بھی نظر آتا نہیں یارب!
میں گھبرا کر مسائل میں اٹھائوں ہاتھ تو مولا!
مَیں دامانِ طلب بابِ حرم میں کھول کر یارب!
نہیں ممکن خدائے مصطفی کے کارخانے میں
خشک سالی پی گئی ہے میرے کھیتوں کا لہو
یا خدا! کھولے صبا، بابِ ثنا باب کرم
مرے قلم کو عطا کی ہے روشنی اُس نے
التجائوں کا دعائوں کا بھرم رکھتا ہے تُو
یا خدا! میرے خدا! سب کے خدا! اچھے خدا
کتنے آنسو ابھی دامن میں گریں گے شب بھر
ہوا ہے شہرِ حوادث میں خیمہ زن لیکن
تاریک ساعتوں کے ہے گرداب میں بشر
زندگی مجہول لمحوں کی گرفت زر میں ہے
زندگی کی شام ہو طیبہ کی گلیوں میں بسر
الہٰی لاج رکھ لے طیبہ کی سرکارؐ کے صدقے
مرے اعصاب پر حد سے زیادہ بوجھ ہے مولا!
شبِ غم کے اندھیروں سے ملائوں ہاتھ میں کیسے

فردیات

مَیں ہی شاید کھوگیا ہوں قریۂ شب میں ریاضؔ
مَیں اک ناچیز بندہ ہوں مری اوقات ہی کیا ہے
دے خدا مجھ کو کُھلی آب و ہوا میں روشنی
کتابِ زندہ کے اوراق چومنے والو
اپنے ہر اک جرم پہ نادم بہت ہوں مَیں
ذات تیری کو پسِ وہم وہم و گماں لکھتا رہوں
اجازت ہو قیامت تک سکونت کی مدینے میں
اتنے دیے جلانے کی توفیق کر عطا
لحد کے گوشۂ مدحت میں روزِ حشر تک مولا!
اے خدا! مَیں عمر بھر لڑتا رہا ہوں رات سے
پروردگار سے مری یہ التماس ہے
رخصت کے وقت اے خدا مہلت ملے مجھے
ریاضؔ! عمرِ گذشتہ پر کیا ہے تبصرہ مَیں نے
تخیل کے پرندے برف زاروں کے قفس میں ہیں
میرے اندر کا انساں حالت سجدہ میں ہے یارب!
سورج کی شعاعوں کو پکڑنے کی تمنا ہے
ہر شامِ غم کے ہاتھ پہ رکھّوں گا روشنی
خس و خاشاکِ طیبہ سے کفن میرا بنے یارب!
شاعر تری عطائوں کا رکھّے گا کیا حساب
آبِ شفا کی بارشیں اتنی شدید تھیں
مختصر سی التجا ہے یا خدا
خدائے مصطفی سے التجا ہے ایک شاعر کی
خدا کے فضل کی بارش میں بھیگا رہتا ہوں
نئے چراغ ہتھیلی پہ آج بھی دھر دے
زخموں کے اندمال کی صورت ہو آج بھی
مجھ پر مزید رحم و کرم اے مرے خدا!
خالی ہے میرا دامنِ صد چاک اے خدا
تیرے سپرد کرتا ہوں اپنے معاملات
گناہوں سے ہے آلودہ ہماری زندگی گرچہ

اکائی

یا خدا!
اگنے لگیں میری زمیں میں آفتاب
یا خدا!
فضل و کرم کی آج بھی برسات ہو
یارب!
ہوا قلیل ہے بستی میں ان دنوں
یا خدا!
زندہ رہے اولادِ آدم کا ضمیر
مستقل
تیری ربوبیت کے ہیں پرچم کھُلے

ودیعت ہے کیا جس نے قلم میرے دبستاں کو
لُغت میری میں جتنے لفظ دے گا لب کشا دے گا