سمٹ جائیںِ ادب سے پر، مری اڑتی دعائوں کے- کائنات محو درود ہے (2017)

سمٹ جائیں، ادب سے پر، مری اڑتی دعاؤں کے
کبوتر سب مؤدب ہیں مدینے کی فضاؤں کے

وہی ہر ایک عالم کے لئے ہیں رحمتِ عالم
وہ آقاؐ ہیں غلاموں، بیکسوں اور بے نواؤں کے

درِ سرکارِ دو عالمؐ کے سب احوال ہیں ریشم
سمندر ہی سمندر ہیں کرم کی انتہاؤں کے

یہ آقائے مکرمؐ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے
افق سے چل پڑے ہیں قافلے کالی گھٹاؤں کے

چلو چل کر مدینے میں بجھائیں پیاس صدیوں کی
درِ اقدس پہ رہتے ہیں خنک موسم عطاؤں کے

مرے چھوٹے سے گھر پر ہیں کرم کی بارشیں بے حد
پرے کے ہیں پرے، عمرِ رواں! شبھ کامناؤں کے

مجھے تو جانبِ طیبہ مسلسل اڑتے رہنا ہے
دہانے تنگ ہیں گرچہ سخن کی تنگناؤں کے

مَیں سلطانِ مدینہ کے کھُلے دربار میں اِمشب
شبینے لے کے آیا ہوں ہمکتی التجاؤں کے

پرندے خود جو زخمی ہیں ضمانت امن کی دیں گے؟
پرِ پرواز سب ٹوٹے ہوئے ہیں فاختاؤں کے

مری کاغذ کی کشتی کے کھُلے ہیں بادباں، مولا!
مگر بگڑے ہوئے تیور ہیں ساگر کی ہواؤں کے

یزیدیت تلاشِ لالہ و گل میں ہے سرگرداں
سفر در پیش ہیں اہلِ چمن کو کربلاؤں کے

ریاضؔ، اعمال نامے کے ورق الٹوں تو کیا الٹوں
رقم حرفِ ندامت ہیں مری اپنی خطاؤں کے