مطافِ کعبہ اقدس میں نعتِ مصطفیؐ مانگوں- کائنات محو درود ہے (2017)

مطافِ کعبۂ اقدس میں نعتِ مصطفیؐ مانگوں
خدائے روز و شب سے اور مانگوں بھی تو کیا مانگوں

مدینے کے جزیرے پر مری کشتی بھی آ پہنچی
خزانہ سامنے ہو تو بھلا نقشہ مَیں کیا مانگوں

مرا مقصود کب ہے مال و دولت کی فراوانی
مدینے میں سکونت کا اقامہ یا خدا! مانگوں

مَیں شہرِ علم کی دہلیز پر اے قادرِ مطلق!
ردائے علم میں لپٹے ہوئے ارض و سما مانگوں

مَیں کتنا خود غرض ہوں امتی سلطانِ طیبہ کا
کبھی تاجِ انا مانگوں کبھی خاکِ شفا مانگوں
مجھے رکھنا حصارِ عجز میں اے داورِ محشر
بوقتِ عدل بھی تجھ سے حروفِ التجا مانگوں

سوا نیزے پہ آ کر آگ برسانے لگا سورج
خدا سے شہرِ طیبہ کی خنک آب و ہوا مانگوں

مہذب ساعتیں پھر لوٹ آئیں یا رسول اللہ
درندوں کا مَیں اپنی سرزمیں سے انخلا مانگوں

مجھے تفہیم کے لعل و جواہر کی ملے تابش
بیاضِ نعت کے ہر ہر ورق کا حاشیہ مانگوں

مَیں اربابِ قلم سے، یا حبیبؐ اللہ، سرِ مکتب
خلافِ علم و دانش ہر عمل پر تبصرہ مانگوں

مرے آبا نے یہ تاکید کر رکھّی ہے صدیوں سے
محمدؐ کے وسیلے سے ہمیشہ ہر دعا مانگوں

جہاں لمحے درودِ پاک کا خیمہ لگاتے ہیں
خدائے صبحِ نو سے مَیں شبِ غارِ حرا مانگوں

ریاضؔ خوشنوا کو بھی رعایا میں رکھیں شامل
غلامی کی سرِ محفل خدا سے انتہا مانگوں

٭٭٭

مسلسل رات دن تجھ سے حروفِ التجا مانگوں
ولائے سرورِ کونینؐ کے ارض و سما مانگوں

رہوں محوِ ثنا قدمین کی جانب مَیں ہر لمحہ
بوقتِ حاضری، یارب! حضوری کی دعا مانگوں

تخیل کے پرندے! اب بتا تُو ہی مجھے آخر
خدا سے تاجِ مدحت کے سوا مَیں اور کیا مانگوں

وہؐ شہرِ علم ہیں سارے جہانوں کے معلّم ہیں
علوم و فن کے مکتب سے کتابِ ارتقا مانگوں

قلم کو حرفِ حق کی پاسداری کا سلیقہ دیں
مقدس خون کے نقش و نگارِ کربلا مانگوں

حروف عجز کے جھرمٹ میں رہتی ہے انا میری
مَیں اسلوبِ ثنا سارے زمانے سے جدا مانگوں

جو نقشِ پائے ختم المرسلیںؐ کا ہو تمنائی
مَیں ایسا قافلہ سالار، ایسا رہنما مانگوں

جوارِ گنبدِ خضرا کا منظر یاد آتا ہے
مدینے کے مَیں نخلستان کی ٹھنڈی ہوا مانگوں

یہ جتنے راستے سیدھے ہیں طیبہ سے نکلتے ہیں
مَیں ہر اک راستے سے آپؐ ہی کے نقشِ پا مانگوں

مدینے کی فضا میں اڑتی رہتی ہیں مری آنکھیں
مؤدب راستوں سے آپؐ ہی کے نقشِ پا مانگوں

سنوں میں داستانِ نور و نکہت سبز موسم سے
کھجوروں کے درختوں کو مَیں آقا لب کشا مانگوں

ریاضؔ امت نبیؐ کی ٹھوکریں کھاتی رہے کب تک
مَیں ہر جلتے جزیرے سے مکمل انخلا مانگوں