ترتیب- کائنات محو درود ہے (2017)

اِظہاریہ

ریاض حسین چودھری اپنی نعت اور نعتیہ کتب کے آئینے میں
(ڈاکٹر شہزاد احمد)
لفظ باوضو ہوکر نمازِ عشق ادا کریں تو نعت ہوتی ہے
(ریاض حسین چودھری)

دو حمدیہ

صبحِ نو کے سر پہ دستارِ گہر دیتا ہے وہ

حمدو نعت

آپؐ کی دہلیز پر محوِ ثنا ہے زندگی
چمن بندی کریں افکارِ نو کے گلستانوں کی

شامِ درود

نعت ہی کی پھول سی تصویر ہے شامِ درود

چہار نعتیہ

امید کی ہے کشتی ایماں کے پانیوں میں

سہ نعتیہ

پھر قلم کو ہے تلاشِ مکتبِ عشقِ نبیؐ
لوگ کن تشکیک کے کانٹوں میں ہیں الجھے ہوئے

دو نعتیہ

طیبہ نگر کے سایۂ دیوار میں اتر
جانِ تہذیب و تمدن ہے دبستانِ حضورؐ
مطافِ کعبہ اقدس میں نعتِ مصطفیؐ مانگوں
ہر آفتاب میرے لئے یہ دعا کرے
کب سے رواں دواں ہیں محبت کے راستے

ثنائے خواجہؐ

سب قلم اور سب حروفِ معتبر محوِ درود
شہرِ جاں، حرفِ ادب، آبِ گہر محوِ ثنا
زیبِ لب، زیبِ ورق، زیبِ قلم، زیبِ زباں
مدینے کے مسافر! ہیں سفر میں سائباں کتنے؟
تابندہ و رخشندہ ہے ایوانِ محمدؐ
حُبِّ سرکارؐ مدینہ میں قلم سرشار ہو
انہیں سلطانِ ما لکھنا، انہیںؐ خیرالوریٰ لکھنا
روشنی نے ذکر چھیڑا آپؐ کے کردار کا
ثنا کے رتجگوں میں لب کشا عمرِ رواں گذری
روک دے یارب! قدم تو وقت کی رفتار کے
سرِ منزل، قلم میرا، چراغِ رہگذر نکلا
سرتا قدم غلام درِ مصطفیؐ کا ہوںـ
مرے ہونٹوں پہ ہیں میرے حروفِ التجا رقصاں
لائے صبا کسی دن پھر اذن حاضری کا
کاسۂ عمرِ رواں میں نعت کی دولت ملی
یانبیؐ، یاسیّدِ کونینؐ یاخیرالبشرؐ
تجلّی ہی تجلّی ہے فضائے شہرِ طیبہ میں
کارواں ہر نعت میں ہے استعاروں کا حضورؐ
شعاعِ مہر و مہ کے ہاتھ میں پرچم ثنا کے ہیں
چنابِ عشق اب کے بھی برس سیراب کرجائے
ایک چشمِ عطا ایک چشمِ کرم یارسولِ خدا، ہوکرم ہی کرم
نقوشِ شام ہجراں پورے منظر سے ہٹادے گی
فضائے کرب و غم ہے آخرِ شب کی دعاؤں میں
ثنائے وادیٔ دلکش میں رہتی ہے زباں میری
چراغِ مدحتِ آقاؐ مری آنکھوں میں روشن ہیں
آقا حضورؐ، آج بھی تنہا بہت ہوں مَیں
شہرِ قلم میں گونجتا حرفِ اذاں رہے
یامحمدؐ، علم کا ہر ہر گہر ہے آپؐ کا
شفق، گلاب، دھنک، روشنی، صبا پہنچے
وطن کے سر پہ طیبہ کے خنک بادل کا سایہ ہے
ہم غلاموں کے دامانِ صد چاک کو، اپنی رحمت کے پھولوں سے بھردیجئے
پیمبرؐ کی بدولت شہرِ جاں رشکِ گلستاں ہے
جیوں گا شہرِ طیبہ میں مروں گا شہرِ طیبہ میں
آپؐ کے در پر ہیں خیمہ زن شفا کے قافلے
حرفِ آخر ہے کتابِ نورونکہت آپؐ کی
ساعتِ نعتِ نبیؐ آتی رہی جاتی رہی
شبنم، بہار، پھول، صبا اور وطن تمام
خوشبوئے خلدِ دعا سے ہے مسلسل رابطہ
مَیں کہ مہمان ہوں آپؐ کا یانبیؐ، میرے سر پر کرم کا کھُلے سائباں
خلدِ طیبہ کے سفر کی بات ہی کچھ اور ہے
یہ جو کھولی ہے صبا نے نعتِ مرسلؐ کی کتاب
ذکرِ اطہر آپؐ کا ہے رونقِ شہرِ قلم
مدینے کی طرف ہجرت کا ارماں ہی کیا ہوتا
طالب حضورؐ آپؐ کے دیدار کا ہوں مَیں
سرمایۂ حیات ہے مدحت رسولؐ کی
مدینے کے آقاؐ، مدینے کے والیؐ
آقا حضورؐ میرے سالارِ زندگی ہیں
دارا میں گم رہوں نہ سکندر میں گم رہوں
طیبہ کی رہگذر میں بیٹھے ہوئے ہیں کب سے
آقاؐ قبولیت کی علامت نصیب ہو
باادب روشن فضاؤں میں رہے میرا قلم
مدحتِ خیرالبشرؐ کی بزم آرائی میں ہوں
آبجوئے جان و دل میں آبِ مدحت ہے رواں
طلب سرکار فرمائیں مجھے قدموں کی جنت میں
مظہرِ عشقِ نبیؐ ہے سربسر شہرِ قلم
مطافِ عشق میں چلنا مرا مقدر ہے
کتاب عشقِ محمدؐ ورق ورق پہ رقم
چشمِ تر میں بہہ رہی ہے التجا کی آبجو
حُبِّ نبیؐ کی وادیٔ شاداب میں رہو
موسلا دھار، جلے کھیت پہ پانی برسے
دل میں سوائے آپؐ کے سرکارؐ کون ہے؟
اُنؐ کے لئے ہی سارے کا سارا نظام ہے
سرِ ایوانِ حرفِ نو کھُلے لاکھوں علم اُنؐ کے
ورق پر مرسلِؐ آخر لکھو، صلِّ علیٰ لکھّو
شاخِ ثنا کی ریشمی کلیوں میں گم ہوں مَیں
لحد میں گوشۂ مدحت کی ہم بھی آرزو رکھیّں
قیمت پڑی ہے خوب زرِ انکسار کی
غلامی کی مشعل اٹھائے ہوئے ہیں
ہیں ازل سے مرسلِ عظمت نشاں، میرے حضورؐ
میرے کشکولِ تمنا میں گریں لاکھوں گہر
دیارِ دل کی حسیں وادیوں میں رہتا ہوں
تلاشِ رزقِ قلم میں دلِ حزیں نکلا
کردارِ مصطفیؐ نہیں گر شاملِ نصاب
سمٹ جائیںِ ادب سے پر، مری اڑتی دعاؤں کے
آپؐ کی دہلیز کو چومے بنا اڑتی نہیں
منظر ہر ایک شہرِ نبیؐ کا نظر میں ہے
مکتبِ عشقِ نبیؐ میں ہے قلمدانِ حیات
قریۂ جاں میں بکھیرے روشنی حرفِ ثنا
ہر لفظ ہو خدائے محبت کا انتخاب
مجھے روشنی کی تلاش تھی میں درِ نبیؐ پہ چلا گیا
بہہ رہی ہو آبجوئے زم زمِ عشقِ نبیؐ
کتاب دیدہ و دل میں حروفِ التجا لکھّو
آپؐ کے چہرۂ اقدس کی تلاوت ہوگی
مرے افکار کی چادر دُھلے قدموں کے دھوون سے
مرے آقاؐ کے اندازِ کرم کی بات ہی کیا ہے
آپؐ کے قدموں کے صدقے میں دعائیں ہوں قبول
میری سوچوں کے نگر میں روشنی ہے روشنی
ٹھنڈی ہوا مدینے کی گلیوں سے آئے گی
حضورؐ، آپؐ کے دیدار کی طلب ہے شدید

قطعات

مکتبِ علم و فن کو یقیں بخش دے
حسنِ گفتار دے، حسنِ تفسیر دے
ہر ایک حرف کو تُو حرفِ مجتبیٰؐ کر دے
مرحبا صد مرحبا شامِ درودِ مصطفیؐ
ورق ورق پہ سجود و قیام کرتے ہیں
یہ پذیرائی کی راتیں، یہ پذیرائی کے دن
اے خدائے روز و شب بے بال و پر بیٹھا ہوں مَیں
ہزار بار ہو سیراب آبِ زم زم سے
تشکر کی جلانا مشعلیں تم اپنی آنکھوں میں
نقشہ دکھا کے گمشدہ اوراق کا مجھے
میرے اسلوبِ ثنا کو خلعتِ انوار دے
اپنے آبا سے وراثت میں ملی حُبِّ نبیؐ
ارمان حاضری کے بکھرے ہوئے ہیں آقاؐ
کیف و سرور کیا ہے شبینے میں بیٹھ کر
کون کر سکتا ہے دریائے محبت کو عبور
خدا کا شکر ہے مَیں قریۂ مدحت کا شہری ہوں
نیند کا غلبہ رہا ہے اس قدر ہم پر حضورؐ
اشکوں کی تار تار ردائیں قبول ہوں
کلکِ شعور مانگ کے ربِّ قدیر سے
علم و حکمت اور دانائی پہ بنیادیں اٹھیں
بند کب اُس نے تجوری میں رکھا ابرِ کرم
میرے وطن میں امن کی بادِ صبا چلے
خدایا! میرے بیٹے کی تو ہر مشکل کو آساں کر
مکتبِ عشق و محبت نفرتوں کی زد میں ہے
مٹ گیا ہے عظمتِ رفتہ کا سب جاہ و جلال
عمر بھر بادل مدینے کے تسلسل سے ریاضؔ
ردائے عافیت کے سائے میں گذرا ہے ہر موسم
شہرِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یا شہرِلاہور ہو!

ثلاثی

جب اٹھاتا ہوں مَیں پرچم آپؐ کی توصیف کا
جن میں آدم خور رہتے ہیں تلاشِ رزق میں
کب ہوا نظروں سے اوجھل گنبدِ خضرا ریاضؔ
ہر ایک آئنہ مجھ سے سوال کرتا ہے
ریاض اپنے بڑوں سے یہی سنا ہم نے
دامنِ سرکار ؐ میں ہیں رتجگے ہی رتجگے
شفا کے پھول کھلیں کشتِ جان و دل میں حضورؐ
بجھ نہ پائیں مشعلیں بچوں کے ہاتھوں میں کبھی
چلو چل کر جوارِ گنبدِ خضرا میں گھر ڈھونڈیں
اِس قدر اُنؐ کی نوازش، اِس قدر اُنؐ کا کرم
ہاتھ کیوں ٹوٹے نہیں خاکہ نگاروں کے ابھی
جس طرف دیکھو چراغاں ہی چراغاں ہے ریاض
سوچتا رہتا ہوں ہاتھوں میں قلم تھامے ہوئے
روشنی لکھتا ہوں مَیں اور روشنی پڑھتا ہوں مَیں
زندگی کی شام ہو طیبہ کی گلیوں میں ریاضؔ
ہواؤ! اذنِ سفر ہے اگر مدینے میں
شایانِ شانِ میرِ اُممؐ، لفظ ہیں کہاں
ہر آنکھ میں ہوں گنبدِ خضرا کی تابشیں
میری ہر ایک نسل کو سردارِ کائناتؐ
آنکھوں میں ہو غبارِ مدینہ کی روشنی
پھول سے لمحے مرے آنگن میں اترے ہیں ریاضؔ
اُنہیؐ کا دستِ محبت شفا کا ضامن ہے
خدا خدا ہے ہر اک چیز کا وہ مالک ہے
کِھلیں گلاب مدینے کے شاخِ جاں پہ حضورؐ
مَیں ترے در پر کھڑا ہوں تھام کر چوکھٹ تری
خدا کا نام لے کر تم تلاشِ رزق میں نکلو
جنابِ سیّدِ لولاکؐ کے نقوشِ قدم
سانسیں اکھڑ چکی ہیں غلاموں کی یانبیؐ
اس عہدِ دلفگار کا بدلے کبھی چلن
یہ دل جوارِ گنبدِ خضرا میں رہتا ہے ریاضؔ
آرزو دامن دریدہ ہے سرِ مقتل حضورؐ
خلدِ طیبہ کی فضاؤں میں رہے اڑتا خیال
برسیں کرم کی کالی گھٹائیں زمین پر

فردیات

مری ہر ایک لغزش سے ہمیشہ درگذر کرکے
مانگتے رہنا خدا سے فرض ہے جانِ ریاضؔ
ایک اک سانس میں توحید کا اترے سورج
مرا اعزاز دیکھو دور رہ کر بھی مدینے سے
مَیں اڑ کر بھی پہنچ جاؤں گا شہرِ نور و نکہت میں
مَیں ہر خط پر محمدؐ مصطفی کا نام لکھتا ہوں
خاکِ انور کا کفن، خاکِ شفا کا پیرہن
یہ تعارف بھی ضرورت سے زیادہ ہے ریاضؔ
یقینا جانتی ہیں نعت گو رہتا ہے اس گھر میں
آقائے محتشمؐ کی گلی کے سوا ریاضؔ
تم انگلیوں پہ گنتے ہو کیا معجزات کو
روزِ محشر نام لے لے کر غلاموں کا ریاض
دھوون حضورؐ آپؐ کے قدموں کا ہو عطا
آپؐ کے در پہ بصد عجزِ مسلسل آقاؐ
بہت ہی مضطرب رہتا ہوں تنہائی کے جنگل میں
مجھے فتنوں کی سازش سے سدا محفوظ تُو رکھنا
مختصر سی زندگی میری حضورؐ
مَیں امیرِ شہر کو خاطر میں کیا لاتا ریاضؔ
یہی منشا خدائے روز و شب کا ہے مرے ساتھی
سانس کی ڈوری الجھتی جا رہی ہے یا نبیؐ
خداوندِ عالم! قیامت کے دن بھی
گن رہا ہوں ساعتیں عمرِ رواں کی آخری
ثروتِ الطاف و رحمت کی ہو بارش رات دن
سوالی بن کے آیا ہوں ترے دربار میں مولا!
زندگی کے آخری ایّام میں جانِ ریاضؔ
روشنی، پانی، ہوا سب کچھ تجوری میں ہے بند
ہوائے نور و نکہت اُس جزیرے میں مجھے لے چل
بفیضِ مدحتِ خیرالبشرؐ اے ہمسفر میرے
سلاطینِ زمانہ آ کے مجھ سے راستہ پوچھیں
کاتبِ تقدیر نے حکم خدائے پاک سے
جس کو نصیب ہوں کبھی طیبہ کی خوشبوئیں
مدینے اور مکّے کے علاوہ ہے وطن میرا
مَیں در و دیوار سے کرتا ہوں اکثر گفتگو
ہر آرزو پہ بند درِ شہرِ جاں رہے
مدحتِ شاہِ مدینہ کی بدولت رات دن
خاکِ طیبہ میں تجھے لاکھوں کروڑوں ملتے
تا ابد ہوگا اجالا ہی اجالا ہر طرف