عمرِ رواں ہے کتنے عوارض میں مبتلا- آبروئے ما (2014)

عمرِ رواں ہے کتنے عوارض میں مبتلا
آقا حضورؐ، چشمِ کرم کی ہے التجا

ایسا بھی ہو غبارِ شبِ اضطراب میں
صر صر کو بھول جائے مرے گھر کا راستہ

مَیں خوش نصیب ہوں مَیں بڑا خوش نصیب ہوں
مجھ کو نصیب ہے کئی صدیوں کا رتجگا

رہتی ہے ہر گھڑی درِ اقدس پہ ملتمس
کلکِ ثنائے سیّدِ سادات، ؐ مرحبا

روشن، حضورؐ، آج بھی خیمے ہیں خوف کے
سر سے ٹلا نہیں ہے بلاؤں کا قافلہ

امت حصارِ غم میں کھڑی ہے مدد کریں
امت کے ناخداؤں کو دیں آپؐ حوصلہ

آثار صبحِ نو کے، افق میں ہیں گم، حضورؐ
ہونے لگا ہے تنگ مصائب کا دائرہ

آقاؐ، غبارِ شامِ غریباں ہے ہر طرف
میری زمیں سے کرب و بلا کا ہو انخلا

چپ چاپ ظلم سہنے کی عادت ہے پڑ گئی
ردِ عمل پہ کیا کروں سرکارؐ، تبصرہ

کب سے غبارِ فتنہ و شر کے لباس میں
پھرتی ہے میری خاک لئے سرپھری ہوا

اپنے ہی گھر میں اجنبی لگتے ہیں ہم حضورؐ
کفار کر رہے ہیں ہمارا بھی فیصلہ

تاریک ساعتوں کا ہے کچھ اس قدر، ہجوم
خندق گلی میں کھودنے نکلیں پسِ وعا

خیرات میرے کاسۂ عِلْم و ہنر میں دیں
صدقہ حضورؐ یومِ ولادت کا ہو عطا

طیبہ کے بام و در پہ سجاتا رہے گلاب
آقاؐ، ریاض آپؐ کی کرتا رہے ثنا