حضوری کے دن ہیں، حضوری کی راتیں، مقدر ہے اوجِ ثریا پہ اپنا- آبروئے ما (2014)

حضوری کے دن ہیں، حضوری کی راتیں، مقدر ہے اوجِ ثریا پہ اپنا
اِدھر بھی سحابِ کرم آکے برسے، اُدھر بھی عطاؤں کی برکھا کا میلہ

خدا سے دعا کی ہے رو رو کے مَیں نے، مجھے کانچ کا اک کھلونا بنا دے
مدینے کے بچوّں کے ہاتھوں میں دیکھی ہے، سرکارؐ، چینی کی ننھی سی گڑیا

قلم وادیٔ مدحتِ مصطفیٰؐ میں، چراغاں چراغاں کئے جا رہا ہے
ابد تک رہے گا یہی رقص جاری، ابد تک رہے گا کرم انتہا کا

مری خوش نصیبی کا عالم نہ پوچھو، خوشی کے بھی اشکوں کی رم جھم یہ دیکھو
مری کشتِ جاں میں، مرے نخلِ دل پر، سحابِ کرم ٹوٹ کر آج برسا

کفن اپنا اس سے بناؤں گا آقاؐ، سرِ حشر سب کو دکھاؤں گا آقاؐ
مری التجا ہے، مدینے کے والی! ملے مجھ کو بھی خاکِ شہرِ مدینہ

سلیقہ نہیں ہے صبا حاضری کا، مگر حاضری کی تڑپ رو رہی ہے
مَیں مجہول سا ایک ناکارہ انساں، سکھا مجھ کو آدابِ دربارِ آقاؐ

اگر قافلہ جاکے طیبہ میں اترا، اگر حاضری کی اجازت ملی تو
مدینے میں چھوٹا سا گھر مانگ لوں گا، کئی بار سرکارؐ مَیں نے ہے سوچا

دیارِ سخن کی بہارِ ازل میں، مرے آنسوؤں کی قطاریں کھڑی ہیں
اجالا، اجالا، اجالا، اجالا، اجالا، اجالا، اجالا، اجالا

قلم کے مسافر، مدینے کے راہی، بڑے شوق سے آسمانِ سخن پر
لکھیں ہر صدی کے مقدر میں رحمت، لکھیں ہر صدی پہ محمدؐ کا سایہ

شمائل، فضائل، خصائل، خصائص کا ذکرِ معطر ہے جاری فضا میں
مَیں سرشار رہتا ہوں نعتِ نبیؐ میں، مجھے یاد سرکارؐ کا ہے سراپا

مجھے سانس لینے میں آسانیاں ہیں، کوئی غم نہیں ہے کوئی دکھ نہیں ہے
مرے دل پہ دیتا ہے دستک ازل سے، ہوائے مدینہ کا شاداب جھونکا

قیادت کی لٹیا ڈبو دی گئی ہے، عدالت کی کٹیا جلانا پڑی ہے
اگر ہو اجازت درِ مصطفیٰؐ سے تو مقتل میں لکھّوں مَیں امت کا نوحہ

ادب کے ہزاروں اگاؤں گا سورج، رہِ مرسلاں میں، رہِ مقبلاں میں
قلم منفرد ہے، زباں مختلف ہے، یہ اسلوبِ مدحت ہے میرا جدا سا

فضا میں ہیں جگنو مری التجا کے، ستارے سے بکھرے ہوئے ہیں ہوا میں
مدینے کی جانب ہوا چل پڑی ہے، بنا لے گی پھولوں کی وادی میں رستہ

مرے لفظ بھیگے ہوئے ہیں ابھی تک، ورق گیلا گیلا، قلم آنسو آنسو
کرم کی نظر ہو، کرم کی نظر ہو، مرے آنسوؤں نے لکھا ہے قصیدہ

سرِ حشر پہچان ہو نعت میری، خنک موسموں کی ہو چھاؤں گھنیری
سرِ حشر مجھ کو جگہ دیجئے گا، جہاں آپؐ کے شاعروں کا ہو حلقہ

خدایا مدینے کی جنت دکھا دے، ادب کے کنارے سے کشتی لگا دے
نہیں ہاتھ کی ان لکیروں پہ قابو، نہیں زندگی کا کسی کو بھروسہ

محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ، محمدؐ،
وہی ہم غلاموں کے آقائے رحمت، وہی ہم غریبوں کے ماویٰ وملجا

بہت کچھ ہے دامانِ خیرا لبشرؐ میں، خدا کی رضا ہے، خدا کی عطا ہے
بجا اپنے دامن کی تنگی کا شکوہ، کُھلا ہے ازل سے کرم کا دریچہ

محلاّت مانگے نہ سونے کے کنگن، نہ لعل وجواہر، نہ چاندی کا دھوون
خدا کا کرم ہے کہ ہم نے خدا سے ثنائے نبیؐ کا قلمداں ہے مانگا

مجھے اور کیا چاہیے اِس جہاں میں مجھے اور کیا چاہیے اُس جہاں میں
درودوں کے گجرے بناتی ہوئی کلکِ مدحت کا دونوں جہاں میں ہے چرچا

مَیں اشکوں سے اپنے وضو کر رہا ہوں، قلم سے ابھی گفتگو کر رہا ہوں
مدینے کی مَیں آرزو کر رہا ہوں، مجھے یاد ہے سب مدینے کا نقشہ

مدینے سے پیغام لائی ہے خوشبو، مرے جان و دل میں سمائی ہے خوشبو
مرا گھر کا گھر وَجْد میں آگیا ہے، بڑے ہی ادب سے مرا دل ہے دھڑکا

یہ قعرِ مذلت میں آقاؐ گری ہے، اذیت کے پانی میں کب سے کھڑی ہے
حضورؐ آپؐ کی امتِ بے نوا کی پریشانیوں کا کروں تذکرہ کیا

مقدر ہمارا کہاں سو گیا ہے، بلندی کا ہر راستہ کھو گیا ہے
غبارِ زرِ شب میں اندھے ہوئے ہیں، چھِنی مشعلِ علم کیا ہم سے آقاؐ

ا؎ ’’زرِ معتبر‘‘ سے ’’متاعِ قلم‘‘ تک، ’’متاعِ قلم‘‘ سے یہ ’’خلدِ سخن‘‘ تک
مری ہچکیوں، سسکیوں، آنسوؤں کا سمندر مدینے کی گلیوں میں پھیلا

1۔ میرے نعتیہ مجموعے

نہیں پاس میرے عمل کا خزانہ، نہیں نیکیاں طشتِ عرضِ ہنر میں
مری مغفرت کے لئے بس ہے کافی، حضورؐ آپؐ کی نسبتوں کا حوالہ

بجز عشقِ سرکارؐ کچھ بھی نہیں ہے، مجھے اُنؐ کی رحمت پہ کامل یقیں ہے
نبی جیؐ کے قدموں میں دن ہیں گذارے، یہی میری دولت، یہی ہے اثاثہ

غلامی کی زنجیر سر پہ اٹھا کر، میں کھو جاؤں گا خود ارادے سے اپنے
خدا نے بنایا ہے ہاتھوں پہ میرے، مدینے کی پاکیزہ گلیوں کا نقشہ

حضورؐ آپؐ آئے تو تہذیب جاگی، مہذب زمانے کے انوار پھیلے
حضورؐ آپؐ آئے تو ارض و سما میں جمودِ مسلسل کا پندار ٹوٹا

حضورؐ آپؐ آئے تو بنیاد رکھی گئی قصرِ ایماں کی وحدانیت پر
حضورؐ آپؐ آئے تو باطل کا سورج بکھر کر سمندر کے پانی میں ڈوبا

حضورؐ آپؐ آئے تو حوّا کی بیٹی کے پیروں کی زنجیر بکھری ہوا میں
حضور آپؐ آئے تو عدل و مساوات کا سبز پرچم فضاؤں نے کھولا

حضورؐ آپؐ آئے تو مدحت کی وادی میں سجدہ کیا کہکشاں نے فضا میں
حضورؐ آپؐ آئے تو لفظوں نے باندھا سروں پر نقوشِ قدم کا عمامہ

حضورؐ آپؐ آئے تو آنگن میں برسیں گھٹائیں خدائے کرم کے کرم کی
حضورؐ آپؐ آئے تو افکارِ نو کا یہ خورشید ہر آسماں پر ہے چمکا

حضورؐ آپؐ آئے تو کفار و مشرک قلمزد ہوئے مکتبِ علم و فن میں
حضورؐ آپؐ آئے تو ہر ایک خطّے میں توحیدِ باری کا ڈنکا بجایا

حضورؐ آپؐ آئے تو فتنوں کے جنگل ہوئے نذرِ آتش خدا کی زمیں پر
حضورؐ آپؐ آئے تو توقیرِ آدم کا موسم فضائے گلستاں میں اترا

حضورؐ آپؐ آئے تو صدیوں پرانی غلامی کی زنجیر قدموں میں ٹوٹی
حضورؐ آپؐ آئے تو جھوٹے خداؤں کی جھوٹی خدائی کا ہر دور بکھرا

حضورؐ آپؐ آئے تو فکر و نظر کے جہانوں نے شفاف ادوار پائے
حضورؐ آپؐ آئے تو عقل و خرد نے بھی پہنا تھا انسانیت کا لبادا

اسے امن کی فاختاؤں کی سنگت، عطا ہو مسلسل دعاؤں کی چادر
ریاضؔ آپؐ کا ایک ادنی سا شاعر، ہوا میں چراغِ ثنا لے کے نکلا