تشنہ لبوں کو سایۂ دیوار بھی ملے- کشکول آرزو (2002)

تشنہ لبوں کو سایۂ دیوار بھی ملے
اس کربلا میں دامنِ سرکار بھی ملے

بنجر زمین ذہن کی لے کر مَیں کیا کروں
آقاؐ نصابِ ثروتِ افکار بھی ملے

ہر شاخ پر ہون مدحت و توصیف کے گلاب
اقلیمِ نعت میں وہ چمن زار بھی ملے

پہلے نقوشِ پا تو وہ ڈھونڈے حضورؐ کے
پھر آدمی کو عظمتِ کردار بھی ملے

وہ حاضری کے وقت کی کیفیتیں نہ پوچھ
سینے سے لگ کے کوچہ و بازار بھی ملے

آنکھیں طوافِ گنبدِ خضرا میں محو تھیں
گرچہ نقوشِ منبر و محراب بھی ملے

اب کے برس یہ عرض گزاروں گا مَیں ریاضؔ
آقاؐ یقیں کی دولتِ بیدار بھی ملے