ہر سخنور کو یہاں کلکِ رضاؒ دیتے ہیں- کشکول آرزو (2002)

ہر سخنور کو یہاں کلکِ رضاؒ دیتے چلیں
نعت گوئی کو ادب کا ضابطہ دیتے چلیں

آؤ پھر لفظوں کے سر پر رکھیں دستارِ سخن
آؤ پھر سوچوں کو پوشاکِ دعا دیتے رہیں

آؤ پھر انوارِ طیبہ سے وضو آنکھیں کریں
آؤ پھر ہونٹوں کو ہم حرفِ ثنا دیتے چلیں

آؤ پھر بانٹیں چمن میں خوشبوؤں کے پیرہن
آؤ پھر جذبوں کو کردارِ صبا دیتے چلیں

زندگی کے آخری دن کو سر مقتل، چلو
عشقِ ختم المرسلیںؐ کا ذائقہ دیتے چلیں

دیدہ و دل کی چمن آرائیوں سے بھی آج بھی
ہم قنوطیت کو حکمِ انخلا دیتے چلیں

اور بھی منزل کوئی ہے اُنؐ کی چوکھٹ کے سوا
ہر مسافر کو مدینے کا پتہ دیتے چلیں

کربلا کے دشت میں برسے گی اب کالی گھٹا
دل شکستہ بچیوں کو حوصلہ دیتے چلیں

ہمِ قلم کو شہرِ ہجرِ مصطفیٰؐ کا دیں مزاج
لوحِ جاں کو رتجگوں کا سلسلہ دیتے چلیں

بے وسیلہ لوگ مانگیں بھی تو کیا مانگیں بھلا
زخمِ مفلس کو زرِ خاکِ شفا دیتے چلیں

چارہ سازِ ہر صدی سرکارِ طیبہ ہیں ریاضؔ
ہر زمانے کو انہیؐ کے نقشِ پا دیتے چلیں

آنسوؤں کو پھر صبا کے ہاتھ پر رکھ کر ریاضؔ
عمر بھر کی التجاؤں کا صلہ دیتے چلیں