بفیضِ نعت قلم کا گلاب مہکے گا- کشکول آرزو (2002)

بفیضِ نعت قلم کا گلاب مہکے گا
چمن کا حُسن رگِ جان و دل میں اترے گا

مَیں زلفِ سیّدِ لولاکؐ کی کروں باتیں
زمانہ میرے مقدر میں چاند لکھے گا

جھکے گا بہرِ سلامی درِ رسالت پر
یہ آفتاب اندھیروں سے جب بھی نکلے گا

تلاشِ آبِ خنک میں اُڑو گے کتنی دور
مجھے یقین ہے ابرِ کرم بھی برسے گا

عجیب موسمِ کرب و بلا ہے چہروں پر
فراتِ قلب و نظر تشنگی سے پھوٹے گا

مَیں اپنے سامنے پاؤں گا روضۂ اطہر
فراق و ہجر کا موسم کبھی تو گذرے گا

بجز تصورِ سرکارؐ طاقِ جاں میں ریاضؔ
چراغ، شفقت و راحت کے کون رکھے گا

حروفِ حق کی جسے بھی تلاش ہو گی ریاضؔ
مرے حضورؐ کے نقشِ قدم تلاشے گا