مَیں عرصۂ محشر میں ہوں- متاع قلم (2001)

خلش ضمیر کی
ہر لمحے کی عدالت میں
مرے خلاف کھڑی ہے گواہیاں لے کر
خدا کا شکر
خدا کا کرم
خداکا ہے فضل
خلش ضمیر کی ہی مستغیث ٹھہری ہے
(خلش ضمیر کی جینے کا ذائقہ دے گی)
وہ جرم جن کا اب اقرار بھی نہیں ہوتا
وہ جرم جن سے اب انکار بھی نہیں ہوتا
میں اعترافِ گنہ کا گنہ کروں گا ضرور
مَیں اپنے ذہن کے ہر بوجھ سے رہا ہوں گا
اب انحراف کی کالک نہ ہوگی چہرے پر
خلش ضمیر کی زندہ رکھے گی قرنوں تک
حضورؐ، عرصۂ محشر میں آج بھی ہے ریاضؔ
حضورؐ، ابرِ شفاعت کو اذنِ ہجرت دیں