یا رسولؐ اللہ! مبارک باد قبول فرمائیں- متاع قلم (2001)

حضورؐ آپ کی اُمت شکستہ دل اُمت
یقیں کی دولتِ بیدار سے تہی دامن
نفاذِ عدل کا منصب بھی کھو دیا جس نے
شعور جس کا مقید ہے تاج محلوں میں
خیال و خواب ہوئی جس کی عظمتِ رفتہ
بلندیوں کی طرف دیکھنے سے بھی قاصر
سبق نفاذِ شریعت کا جس کو یاد نہیں
عذاب جس کا مقدر بنا ہے صدیوں سے
غبارِ دولت و رسوائی جس کا پیراہن
جو اپنی ذات کے گنبد میں اپنی قیدی ہے
جسے نصیب تمکّن کبھی نہیں ہوتا
ہیں جس کے لفظ بھی صدیوں سے زنگ آلودہ
جو بے عمل ہے، تفکر سے جی چراتی ہے
نہیں ہے جس کو ثناسائی اپنے آبا سے
جو اپنے اجلے تشخص کو بھول بیٹھی ہے
بچھا چکی ہے جو مکتب میں علم کی مشعل
کٹھن ہیں جس پہ شب و روز زندگی کے حضورؐ
ہیں جس کی سوچ پہ پہرے جہالتوں کے بہت
جسے ہوس کی تمازت میں رزق ملتا ہے
جسے حدیثِ دل و جاں سے واسطہ ہی نہیں
غروبِ شام کا منظر ہے جس کی آنکھوں میں
حنوط لاش ہے جس کے بدن کے اندر بھی
جمود کب سے ہے طاری یقیں کے موسم پر
ہدف بنی ہے جو اغیار کی ملامت کا
ہے داغ جرمِ ضعیفی کا جس کے سینے پر
حضورؐ آپ کی امت شکستہ دل امت
زمیں پہ جبرِ مسلسل کو دے چکی ہے شکست
مروڑ دی ہے کلائی نظامِ باطل کی
قضا کے زہر بجھے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں
حضورؐ آپ کی امت کے نوجوانوں نے
قدم قدم پہ سجائے تھے ارتھیوں کے ہجوم
ورق ورق پہ شجاعت کی داستاں لکھی
بتا دیا ہے یہ اپنے عمل سے افغاں نے
زمینِ کرب و بلا پر حسینؓ زندہ ہے
حضورؐ، عظمتِ رفتہ کی چاندنی کا شباب
جھلک رہا ہے جو تاریخ کے جھروکے سے
فلک سے سبز سویروں کی رم جھمیں اتریں
اُفق افق پہ چراغوں کا رقص جاری ہے
ہر ایک بُوند لہو کی نشاط آگیں ہے
(مگر حضورؐ بہت قتل گاہیں زندہ ہیں
ابھی تو دخترِ کشمیر سر برہنہ ہے
اُتر کے آئے گا کب چاند میرے آنگن میں
کٹے گی کب پڑی زنجیر میرے پیروں کی
عروسِ صبحِ بہاراں کے کب کھلیں گے علم
حضورؐ، ارضِ فلسطیں پہ بھی کرم کی نظر)

حضورؐ، سیدِ کون و مکاں مبارک ہو،
حصارِ دشت و جبل میں اذاں مبارک ہو