سفرِ طیبہ سے پہلے- متاع قلم (2001)

ٹھہر جا بادِ صبا، عشق کا دریا لے لوں
احتراماً ترے ہاتھوں کا بھی بوسہ لے لوں
مانگ لوں حضرتِ جامیؒ سے گدازِ مدحت
کلکِ حساّنؓ سے خوشبو بھرا لہجہ لے لوں
راہِ طیبہ میں بچھاتا چلوں کرنوں کے گلاب
حُسنِ تخلیق کا دامن میں اُجالا لے لوں
کیا تمنّا سی تمنّا ہے کہ ہر زائر سے
ایک اک طیبہ میں گزرا ہوا لمحہ لے لوں
ایک محشر سا بپا رہتا ہے جس کے اندر
ساتھ اپنے وہ طلسمات کی دنیا لے لوں
اپنے سامانِ سفر میں مَیں بصد حرفِ نیاز
آخرِ شب کی دعاؤں کا سراپا لے لوں
تشنہ اوراقِ شب و روز کی پیشانی پر
آنسوؤں سے جو رقم ہے وہ صحیفہ لے لوں
خطۂ پاک کی عظمت کے لئے کر کے دعا
خطۂ پاک کے ہر فرد کا نوحہ لے لوں
عین ممکن ہے ریاضؔ آپؐ طلب فرمائیں
شوقِ دیدار کا ہاتھوں میں بھی کاسہ لے لوں