زیرِ قدم کبھی تو زمیں کا گماں نہیں- رزق ثنا (1999)

زیرِ قدم کبھی تو زمیں کا گماں نہیں
آقا حضورؐ، سر پہ کبھی آسماں نہیں

ادھڑے ہوئے بدن کو چھپائوں کہاں حضورؐ
اس شہرِ دلفگار میں جائے اماں نہیں

محرومیوں کی راکھ سلگتی ہے ہر طرف
قسمت حضورؐ مجھ پہ ابھی مہرباں نہیں

بازارِ عشق میں ہے کھڑا اس طرح کوئی
کشکولِ جان و دل میں زرِ جاوداں نہیں

نسبت ہے کربلا سے نہ طائف سے واسطہ
رنگین اس لیے تو مری داستاں نہیں

رکھ دوں گا کھول کھول کے دل کے معاملات
اچھا ہے آج بادِ صبا درمیاں نہیں

اقلیمِ شعر میں ہیں کھِلے نعت کے گلاب
مولا! مرا یہ عجز ہے زورِ بیاں نہیں

دیوار و در سجے ہیں درود و سلام سے
برقِ تپاں کی زد میں مرا آشیاں نہیں

شاخِ صدا پہ پھول سجا انؐ کے نام کا
تاحشر جس کے واسطے کوئی خزاں نہیں

جنّت کو بھی وہ جائے تو ہر گز نہیں قبول
طیبہ کی سمت راہ گزر جو رواں نہیں

نغمہ کہاں سے پھوٹے گا حُبِّ نبیؐ کا گر
مضرابِ شوق، دل کے حرم میں نہاں نہیں

کل کس طرح حضورؐ کی چوکھٹ پہ جائے گا
جو شخص آج گردِ رہِ کارواں نہیں

کورا ہے ہر ورق مرے اعمال کا مگر
کب مجھ پہ انؐ کی رحمتوں کا سائباں نہیں

مجرم ہوں لے چلو مجھے منصف کے سامنے
لرزش مرے قدم میں ہے منہ میں زباں نہیں

جلتے نہیں چراغ دریچوں میں خوف سے
شاید دیارِ شب کا کوئی حکمراں نہیں

ہر سمت اضطراب کی لہریں رواں دواں
آغوشِ عافیت میں مری بستیاں نہیں

کل بھی انا کی کرتے تھے ہم پرورش حضورؐ
خوفِ خدا کا آج بھی نام و نشاں نہیں

کچھ لوگ ظلمتوں کی امامت کیا کریں
انوارِ چشمِ عصرِ رواں پرفشاں نہیں

میزانِ عدل ظلم کی تحویل میں حضورؐ
گویا ضمیرِ زر میں خلش کا دھواں نہیں

اٹھے حضورؐ گنبدِ خضرا سے پھر گھٹا
شاداب ساعتوں میں جلی کھیتیاں نہیں

یہ اور بات تو نے پکارا نہ ہو کبھی
ورنہ ریاضؔ میرا پیمبرؐ کہاں نہیں

قطعہ

رخصت کے وقت میرے لبوں پر مرے رفیق
کشتِ ثنا و حمد سے کلیاں اٹھا کے رکھ
لکھّوں گا مَیں لحد میں بھی اپنے نبیؐ کی نعت
میرے قلم کو میرے کفن میں چھپا کے رکھ