نقشِ کفِ پیمبرِ کون و مکاںؐ میں ہے- رزق ثنا (1999)

نقشِ کفِ پیمبرِ کون و مکاںؐ میں ہے
میرا یہ گھر ازل سے اسی سائباں میں ہے

مہکا ہے لب پہ ذکرِ جمالِ شہِ حجاز
اک کیفِ سرمدی مرے نطق و بیاں میں ہے

فیضان ہے یہ گنبدِ خضرا کا رات دن
اک موسمِ بہار مرے آشیاں میں ہے

پلکوں پہ عکس ریز ہے شہرِ خنک کی دھول
دل کا چراغ روزنِ اشکِ رواں میں ہے

ان رتجگوں کو عمرِ خضر دے مرے خدا
کیفِ دوام پچھلے پہر کی فغاں میں ہے

اِس وقت لوٹ جائے اجل آسمان کو
مصروف کوئی ذکرِ شہِ مرسلاں میں ہے

زندہ ہیں ہم تو آپؐ کے الطاف کے طفیل
ورنہ حضورؐ کون ہمارا جہاں میں ہے

کیا کچھ نہیں حضورؐ کے نعلین پاک میں
محرابِ عشق، سنگِ درِ آستاں میں ہے

ہونٹوں پہ رک سی جاتی ہے ہر آرزو مری
بادِ صبا حضورؐ ابھی درمیاں میں ہے

کشتی کو چوم چوم کے طوفاں پلٹ گئے
اسمِ رسولؐ لپٹا ہوا بادباں میں ہے

اب پھر ملے غبارِ مدینہ کی چاندنی
کب سے کوئی حصارِ شبِ بے اماں میں ہے

صیقل نہیں ہے آئنہ آقاؐ حیات کا
آلائشِ انا بھی دلِ بدگماں میں ہے

آقاؐ کہیں سے کالی گھٹا بھیج دیجئے
آشوبِ عہدِ خشک مری داستاں میں ہے

ہر ارتقاء کے بام پہ ہیں آپؐ کے قدم
سورج نئے شعور کا کس آسماں میں ہے

جب قافلے دیارِ نبیؐ کی طرف بڑھیں
سمجھو ریاضؔ گردِ رہِ کارواں میں ہے

قطعہ

حضورؐ طاق میں رکھے کوئی دیے کیسے
قدم قدم پہ ہوائوں کی حکمرانی ہے
کتابِ جبر کے اوراق کے پسِ پردہ
نفاذِ عدل کی الجھی ہوئی کہانی ہے