فغانِ حمد- کلیات نعت

ہے کس شمار میں یہ بندۂ حقیر ترا
تری رضا کا طلبگار ہے فقیر ترا

یہ کہکشائیں، یہ پہنائیاں، یہ شمس و قمر
ہر ایک ذرۂ عالم ہے راہ گیر ترا

یہ بحر و بر، یہ ہوائیں، یہ کاروانِ حیات
ازل سے عقل و خرد کے لئے سفیر ترا

مگر وہ رحمتِ بے حد ترے رسولوں کی
کہ جس سے عالمِ انساں ہؤا اسیر ترا

ترے وہ صاحبِ خلقِ عظیم، پیارے نبیؐ
کہ جن کے نور سے سارا جہاں منیر ترا

ترا کرم، ترا احساں-ہمارے پیارے رسولؐ
مرے خدا! نہیں، کوئی نہیں نظیر ترا

زباں پہ نغمۂ حمد و ثنا بھی تیری عطا
جہانِ لطف و عنایت بھی جوئے شیِر ترا

ترے حضور گناہوں کا بوجھ لایا ہوں
ہے تجھ سے مانگتا بخشش تری، فقیر ترا

مری جبیں میں ہے دہلیزِ مصطفیٰؐ کا لمس
اے لاشریک خدا! عفوِ بے نظیر ترا!

*

ترے کرم سے مزیّن ہے کائنات تمام
ہے تیرے جود سے جاری یہ کاروانِ حیات

ترے کرم سے رواں ہے یہ بزمِ ارض و سما
ترے کرم کی ہوا پر ہے بادبانِ حیات

لہو کی آگ جلائی ہوئی ہے انساں نے
مگر ہے تیرا کرم بحرِ بیکرانِ حیات

یہ روند دیتا ہے کلیوں کے حسنِ نازک کو
تو پھر بھی کرتا ہے تزئینِ گلستانِ حیات

یہ تیری رحمت و بخشش کی سب بہاریں ہیں
بچھا ہوا ہے تری نعمتوں کا خوانِ حیات

عدو پہ جود و سخا کی سوا ہے تیری عطا
نہیں ہے تجھ سا کوئی اور میزبانِ حیات

بدن کی رات میں نکلا ہے تیری یاد کا چاند
ترے ہی ذکر سے مہکا ہے گلستانِ حیات

مَیں ایک بندۂ عاجز ہوں ملتجی تجھ سے
تری رضا ہی کو جو جانتا ہے شانِ حیات

ہے مغفرت کا چراغاں شبِ ندامت میں
ترے کرم سے ہے روشن مرا مکانِ حیات

گناہگار بہت ہوں مگر ہے نادم کی
ترے ہی دھیان سے ماخوذ داستانِ حیات

*

تو جانتا ہے رکوع و سجودِ شمس و قمر
مرے بھی قلبِ پشیماں کو خوب جانتا ہے

فضائے کعبہ پہ میں نے جو آنسوؤںسے لکھی
اُس التجائے شبِ جاں کو خوب جانتا ہے

درِ رسولؐ پہ شرمندگی کی سانسوں میں
تو التماسِ غلاماں کو خوب جانتا ہے

وہ آرزو، وہ تمنا، مرا وہ دردِ نہاں
فروغِ توبۂ سوزاں کو خوب جانتا ہے

مرا وہ رشتۂ جاں سیرتِ رسولؐ کے ساتھ
تو میری رغبتِ قرآں کو خوب جانتا ہے

مرا یقین کہ سر پر ہے اب دمِ رخصت
تو میرے قلبِ پریشاں کو خوب جانتا ہے

میں وہ کہ لتھڑا ہوا ہوں بہت گناہوں میں
تو میرے باطنِ لرزاں کو خوب جانتا ہے

میں کس قدر ہوں خطاکار، یہ خبر ہی نہیں
تو میرے خوف فراواں کو خوب جانتا ہے

غمِ رضا میں سلگتا ہُوا یہ دل میرا
تو میری آتشِ پنہاں کو خوب جانتا ہے

میں کچھ بھی ہوں، ترے محبوبؐ کا غلام تو ہوں
تو میری روح کے طوفاں کو خوب جانتا ہے

بھنبھوڑ دیتا ہے طوفانِ رنگ و بو مجھ کو
تو میری شامِ بیاباں کو خوب جانتا ہے

ہوائے نفس جو مجھ ناتواں کے اندر ہے
تو اس کے رتبۂ شیطاں کو خوب جانتا ہے

ہیں تیرے ذکر سے روشن مرے قیام و قعود
مری ندامتِ پنہاں کو خوب جانتا ہے

*

تری ثنا میں ہیں رہتے مگن جو صبح و مسا
انہی کے قدموں کا دوھون مرا مداوا ہے

تو سبز کرتا ہے برگِ خزاں رسیدہ کو
مجھے بھی بخششِ احوال کی تمنا ہے

دھنک ہے، نور ہے، خوشبو ہے باغِ رحمت میں
مرے بھی دل میں نہاں شبنمی قصیدہ ہے

میں خود کو اپنی خطاؤں سے پاک کیسے کروں
کہ مجھ کو مالکِ ارض و سما سے ملنا ہے

یہ میرا کرب ہے مولا، تری رضا کے لئے
جو ہو گیا ہے، مجھے اس سے پاک ہونا ہے

درِ رسولؐ پہ جاتا ہوں شرمساری میں
مگر یہ سب تو اُنہیؐ کے کرم کا دریا ہے

ستونِ توبہ کی تمثیل کے تصور میں
وجود کاوشِ پیہم سے باندھ رکھا ہے

مری سعیء مشقّت، ستونِ توبہ ہے
اِس ابتلا میں اِسی نے سنبھال رکھا ہے

ہے کارِ خیر بھی بن جاتا طوق گردن کا
نہ گرچہ دنیا سے کوئی مرا علاقہ ہے

تری رضا کے لئے جس سے بھی بھلائی کی
اسی نے میری رگِ جاں پہ ہاتھ ڈالا ہے

گِلہ میں اپنے ہی خوں سے کروں تو کیسے کروں
ہر ایک بوند لہو کی فریبِ دنیا ہے

میں کس طرح سے یہ شام و سحر گذارتا ہوں
عیاں ہے تجھ پہ، مرا سارا ماجرا کیا ہے

ہے کس شمار میں یہ بندۂ حقیر ترا
تو اِس کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے

*

ہے میری ساری مشقّت تری ثنا کے لئے
تھکن بھی تازگی ہے اک تری رضا کے لئے

ہے چلتی جیسے رگِ گل میں لہر خوشبو کی
بسی ہے دل میں محبت ترے لقا کے لئے

ذخیرہ جیسے ہو پانی کا بادلوں میں نہاں
بھری ہے روح میں توبہ تری رضا کے لئے

وجود ٹوٹ گیا ہے مرا ترے غم میں
اے میرے پیارے خدا! تجھ سے التجا کے لئے

بجاہِ سیّدِ کونینؐ بخش دے مجھ کو
کہ ڈر رہا ہوں بہت ساعتِ فنا کے لئے

پھنسی ہوئی ہے فتن کے بھنور میں کشتیٔ جاں
عطا نجات کریں کاوشِ وفا کے لئے

سجا رہے مری آنکھوں میں تیری حمد کا نور
درِ شفیعِ اممؐ پر رہوں ثنا کے لئے

*

ہے لحن لحن رواں قرأتِ ثنا تیری
ہے خامشی میں نہاں وسعتِ ثنا تیری

تری ہی حمد سے روشن ہے خوشبوؤں کا بدن
بیانِ عارضِ گل شوکتِ ثنا تیری

جہاں میں ناپتی پھرتی ہیں نور کی کرنیں
میانِ ارض و سما قامتِ ثنا تیری

ہے شاخ شاخ پہ جاری ترے ہی نام کا ذکر
ہوَا میں تیرتی ہے زینتِ ثنا تیری

چمن میں چاروں طرف موسموں کے جھرمٹ میں
کرن کرن ہے عیاں طلعتِ ثنا تیری

تری ہی سمت میں جاری ہے زندگی کا سفر
ہر ایک آن میں ہے سرعتِ ثنا تیری

تو کیسے دیتا ہے دنیا کو مہلتِ عشرت
ورائے فکر و نظر رحمتِ ثنا تیری

*

جہاں میں ظلم کے دوزخ میں جل گیا انساں
پہاڑ روئی کے گالے بنے نہیں اب تک

درندگی نے بھنبھوڑی ہے زندگی لیکن
یہ آسمان لپیٹے گئے نہیں اب تک

نہ چیتھڑے ہی بچے ہیں حیا و حرمت کے
ترے غضب کے سمندر چڑھے نہیں اب تک

فلک بھی دیکھتا رہتا ہے خونِ ناحق کو
کہیں بھی کوئی ستارے بجھے نہیں اب تک

حواس پاش ہے حوا کی بیٹیوں کی فغاں
ہیں آئے دہر میں وہ زلزلے نہیں اب تک

عیاں ہے قربِ قیامت کا خونچکاں منظر
ترے خزانے مگر کم ہوئے نہیں اب تک

تو لا شریک ہے، رحمٰن ہے، رحیم ہے تو
ترے کرم کے رکے سلسلے نہیں اب تک

*

تو لا شریک ہے پروردگارِ عالم ہے
معاف کرتا ہے، تو مہربانِ آدم ہے

جو ہو نہ شرک، کبائر بھی بخش دیتا ہے
ترے خزائنِ جود و سخا میں کیا کم ہے

سلگ رہا ہوں میں کب سے تری محبت میں
ہوں ملتزم پہ، مرے دل کی آنکھ بھی نم ہے

رضا کی بھیک مرے کاسۂ گدائی میں
اے میرے پیارے خدا! توُ تو میرا محرم ہے

میں بے نوا بھی ہوں، بے بس بھی، تیری دنیا میں
تری رضا کی طلب ہی مگر مرا غم ہے

پڑا بدن کے کھنڈر میں ہے روح کا لاشہ
فگار سینہ ہے، پہلو میں دردِ پیہم ہے

تو شان والا ہے، زخمی کو صبر دیتا ہے
کرم ہے، یاد تری میرے دل کا مرہم ہے

گنہ کی رات سے بخشش کی ہو سویر طلوع
جس امتحان میں ہوں اُس سے سرخرو کردے

خشوعِ قلب و نظر میں حواس کھو جائیں
درِ نبی پہ مجھے پیکرِ خضوع کر دے
میں ڈوب جاؤں ندامت میں پھر سرِ مژگاں
مرے وجود کو توبہ کی آبجو کر دے

مری ندا کو بھی اعزازِ استجاب ملے
گناہ گار ہوں، نادم ہوں، محوِ ہوـ‘ کر دے

عطائے فقر و غنا کی طرح مرے مولا
مرے شعور کو محرومِ رنگ و بو کر دے

درِ رسولؐ پہ کی تھی جو تجھ سے پچھلے برس
قضا سے قبل مری پوری آرزو کر دے

میں تیری یاد میں صبح و مسا تڑپتا رہوں
کچھ اس طرح سے مجھے میرے روبرو کر دے

پڑا رہوں ترے محبوبؐ ہی کے در پہ سدا
مرے نصیب کو تُو اتنا خوبرو کر دے

یہی ہے حمد تری، تجھ سے مانگتا ہی رہوں
اے میرے پیارے سخی! تجھ کو پوجتا ہی رہوں