درِ حبیبؐ سے لے لو حیات نو اب بھی- کلیات نعت

درِ حبیبؐ سے لے لو حیات نو اب بھی

فروغِ وقت کہ ہے تیرا راہرو اب بھی
محیطِ عصر ترے عشق کی ہے ضو اب بھی

ترے وجود سے ہے کائنات حسن شعار
ترے جنوں میں عناصر ہیں مدح گو اب بھی

یہ کائنات تو کیا لامکاں بھی وجد میں ہے
نہالِ سدرہ پہ ہے کوئی نعت گو اب بھی

وہ نور، صلِّ علیٰ، ساعتِ دعائے حرا
جبینِ آخرِ شب پر ہے جس کی ضو اب بھی

صبا کے ہاتھ میں بوئے گلِ مدینہ ہے
صبا کے ہاتھ سے خیرات مانگ لو اب بھی

صبا مدینے سے آئی ہے روشنی لے کر
چراغِ دل کو صبا آشنا کرو اب بھی

حضورؐ آپ کی امت کے کارواں کی خیر
کہ راہزن ہیں نہاں بن کے راہرو اب بھی

فصیلِ شہر پہ لکھاّ ہے گرچہ کل کا عذاب
درِ نجات کھُلا ہے ستمگرو اب بھی

نویدِ حسن مقدر ہے خفتہ بختوں کو
حضورؐ بانٹ رہے ہیں کرم، چلو اب بھی

اک امتی کہ ندامت میں مر گیا ہے حضورؐ
کرم کی بھیک ملے، التفات ہو اب بھی

ضیاعِ عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیزؔ
درِ حبیبؐ سے لے لو حیات نو اب بھی

*