کشورِ لوح و قلم کے سرمدی پردوں میں تھا- رزق ثنا (1999)

کشورِ لوح و قلم کے سرمدی پردوں میں تھا
نعت کا مضمونِ تازہ باوضو لفظوں میں تھا

دست بستہ سوچ گم دہلیزِ پیغمبرؐ پہ تھی
چشمِ نم کا آئنہ ہر حرف کے ہاتھوں میں تھا

ہر زمانے ہر صدی ہر عہد اور ہر دور میں
ایک چہرہ سب سے روشن اَن گنت چہروں میں تھا

تُو نے ایسے ہی نہیں رکھا مرے گھر میں قدم
کچھ اثر بادِ صبا میرے بھی اِن اشکوں میں تھا

جن کے سینے پر فروزاں اُنؐ کے ہیں نقشِ قدم
ایک دیوانہ مدینے کی انہی گلیوں میں تھا

زندگی کے کرب کی زنجیر تھی کھلتی گئی
کیا گدازِ لمسِ شبنم راہ کے کانٹوں میں تھا

ڈھونڈتا پھرتا تھا میں نقشِ کفِ پائے حضورؐ
اک عجب سا کیف میرے مضطرب سجدوں میں تھا

عمر بھر شادابیٔ جنّت کا کیا آتا خیال
گنبدِ خضرا کا ہر منظر مری آنکھوں میں تھا

کیا مقدّر کی بلندی تھی کہ مجھ سا بے نوا
روزِ محشر سائبانِ نور کے سایوں میں تھا

اُنؐ کے آنے پر سحر برسی گھٹائوں کی طرح
ورنہ قرنوں سے ہجومِ ابرِ شب ذہنوں میں تھا

وہ مقامِ عشق جس کی آرزو کرتے ہیں لوگ
عندلیبِ گلستانِ نعت کی نعتوں میں تھا

آج بھی نخلِ دل و جاں پر کھلے کرنوں کے پھول
آج بھی وجدان میرا نور کے جھرنوں میں تھا

خاکروبوں میں ریاضؔ اسناد جب بٹنے لگیں
خوبیٔ قسمت کہ میں سرکارؐ کے قدموں میں تھا

قطعہ

اک دلنواز شام و سحر رتجگا رہا
سر بھی قلم کے ساتھ ورق پر جھکا رہا
صد شکر پچھلے سال بھی غفلت کے باوجود
دہلیزِ مصطفیؐ سے مرا رابطہ رہا