پیش حرف- خون رگ جاں

اتنا تو طے ہے نا کہ شاعری کے عناصر خمسہ ہیں، مشاہدہ تخیل، محاکات، جذبات اور موزونیت! مگر آگے چل کر ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث چھڑ جاتی ہے، اس محاذ پر اب تک نہ کوئی جیتا ہے نہ ہارا ہے مگر جنگ جاری ہے۔ اول الذکر مدرسۂ خیال کے حامی تو ڈنکے کی چوٹ یہی رٹ رہے ہیں کہ شاعر یا ادیب کو مقصد یا افادیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ تو اپنے انفرادی رنج و راحت کے جذبے سے مجبور ہوکر کبھی آہ بھرلیتا ہے کبھی واہ کہہ جاتا ہے۔ اس کا معاشرے کی اچھائی یا برائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر ثانی الذکر مکتبہ فکر شعر میں مقصد اور افادیت پر زور دیتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ شاعری مجذوب کی بڑ نہیں ہوتی اور شاعر معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ بھی معاشرے ہی کی پیداوار ہوتا ہے اس کی آہیں یا نعرہ ہائے مسرت انفرادی نہیں ہوتے بلکہ معاشرے کے دکھ سکھ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں بلکہ اس کا ردعمل اور بعض نقاد تو اس جذبے سے اس قدر سرشار ہوتے ہیں کہ وہ مقصدی شاعری کے ڈانڈے غالب سے جاملاتے ہیں۔ اگرچہ ہماری رائے میں یہ امر محل نظر ہے کیونکہ غالب تک یہ شعور پیدا ہی نہیں ہوا تھا ،حقیقت یہ ہے کہ ہماری شاعری کی مقصدیت اور افادیت پہلی بار حالیؔ اور اکبرؔ سے ابلاغ پاتی ہے پھر اس بنیاد پر علامہ اقبالؒ نے عظیم الشان قومی شاعری کا محل تعمیر کیا جو مقصدی شاعری کا شاہکار ہے۔

شہر اقبال ہی سے اٹھنے والا نوجوان شاعر ریاضؔ حسین چودھری بھی اسی مکتبہ فکر کا پیرو ہے، ا س کا تخیل انفرادی تنگنائے میں مقید نہیں بلکہ اسے اجتماعی رنج و راحت کا وسیع تر شعور ہے۔ اس کی ہمدردیاں عالم اسلام سے نہایت نمایاں اقبال کے شعر کا مصداق ہیں:

مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ

ریاضؔ بھی دیدۂ بینائے قوم ہے۔ اس کا دل بھی مسلمانان عالم کے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اس کی شاعری اسلام دوستی، حریت پسندی، استعمار دشمنی اور استبداد شکنی کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ وہ شدید حب وطن کے جذبے سے بے حد سرشار ہے۔

اس نظم میں اس نے اپنے دل کا سارا درد صفحہ قرطاس پر بکھیر کر رکھ دیا ہے اس کے مصرعے مصرعے میں حضور سرور کائناتﷺ کی محبت، مشاہیر ِاسلام سے والہانہ عقیدت اور وطن سے کمال شیفتگی ٹپک رہی ہے۔

اور لطف یہ ہے کہ ہمارے نوجوان شاعر نے مقصدیت اور افادیت کے جوش کے باوجود شعریت کا دامن کہیں نہیں چھوڑا، نظم میں تمام شاعرانہ محاسن موجود ہیں۔ روانی، سلاست، برجستگی اور الفاظ کا درو بست حضرت علامہ اقبال کے شکوے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ قارئین کرام اس نظم میں شکوے کا سا موڈ پائیں گے اگرچہ یہ کہنا جسارت ہوگی کہ یہ نظم اس کی ہم پلہ ہے۔

سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے

شاعر ابھی ابلاغ و ارسال کی منزلیں طے کررہا ہے، وہ بن نہیں چکا بلکہ ابھی بننے کے مراحل میں ہے اور کسی دن بن بھی جائے گا مگر اس نظم کی اٹھان سے یہ پیشگوئی کچھ مبالغہ آمیز نہیں ہوگی کہ ’’نخستیں گام برمنزل رسیدی‘‘۔ خون ِرنگ جاں کی دیگر نظمیں ’’اے حدیثِ عشق و مستی کے مفسرالسلام، یوم مسجد اقصی، ہلال استقلال‘‘ وغیرہ بھی انہی ملی جذبات کی آئینہ دار ہیں ہمیں امید ہے کہ قارئین کرام شاعر کے خلوص کے ساتھ ساتھ اس کی فنکاری کا بھی اعتراف کریں گے اور اس کی یہ فریاد نہ صرف سنی جائے گی بلکہ اثر انگیز بھی ثابت ہوگی۔

آغا صادق
ساہی وال 18 نومبر 1970ء