زرخیز لمحوں کی تلاش میں- ارض دعا

وہ بھی دن اترے گا میری سر زمینِ پاک پر
زندگی مفہومِ آزادی سے ہوگی آشنا
ہر کوئی تعمیرِ پاکستان کا ہوگا نقیب
ہر کوئی سجدے میں گرجائے گا مانندِ دعا

وہ بھی دن اترے گا میری سر زمین پاک پر
روشنہ ہی روشنی ہوگی در و دیوار پر
چاندنی رقصاں رہے گی کوچہ و بازار میں
امن کی کالی گھٹا برسے گی سب اشجار پر

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمین پاک پر
ہر دریچے پر ہوائیں دستکیں دیں گی ہزار
مرد و زن گائیں گے کھلیانوں میں خوشحالی کے گیت
ہر گلی کے موڑ پر خیمے لگائے گی بہار

وہ بھی دن اترے گا میری سر زمین پاک پر
یہ ہلالی پرچم جھوم کر لہرائے گا
عظمتِ جمہور کا جب تاج پہنیں گے عوام
لمحہ لمحہ عمر کا بختِ رواں بن جائے گا

وہ بھی دن اترے گا میری سر زمینِ پاک پر
عافیت کی سبز کرنوں سے لپٹ جائیں گے ہم
عدل کی زنجیر ہر اک ہاتھ میں ہوگی ضرور
سچ ہی لکھیں گے ہمارے زندہ دل اہلِ قلم

وہ بھی دن اترے گا میری سر زمینِ پاک پر
بھوک اور افلاس سے ہر شخص پائے گا نجات
اپنی اپنی چھت پہ گھومیں گے چمن زاروں کے پھول
جگمگاتی ہی رہے گی چاند سی راہِ حیات

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
آمریت کی فصیلوں پر گریں گی بجلیاں
بالا دستی ملک کے قانون کی ہوگی عزیز
ہر صدا میرے وطن کی ہوگی پابندِ اذاں

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
جس کی پیشانی پہ چمکے گا ستاروں کا ہجوم
خوشبوئیں جس کی بلائیں لیں گی کر کرکے طواف
جس کے دامن میں سجیں گے آسمانوں کے علوم

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
جو مدینے کی ہواؤں سے جلائے گا چراغ
جو بنائے گا گھروندے ساحلِ امید پر
جو جزیرے میں خزانے کا لگائے گا سراغ
وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
علم، حکمت اور دانائی سے ہوگا جو نہال
جس کی آنکھوں میں جلیں گے فکر و فن کے ماہتاب
عظمتِ رفتہ کا اپنے ساتھ لائے گا جلال

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
جو مرے کھیتوں پہ زرخیزی کے لائے گا سحاب
خوشۂ گندم میں ہوں گے فضلِ ربی کے گہر
اس کےہاتھوں پر سجے ہوں گے ہزاروں آفتاب

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
جو مرے ہر خواب کی تعبیر لائے گا ضرور
ہوگا جس کے ہاتھ پر زندہ شہیدوں کا لہو
مژدۂ آزادیِ کشمیر لائے گا ضرور

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
ہر کسی کے نامۂ اعمال کا ہوگا حساب
ہر کوئی روشن کرے گا اپنے حصے کا چراغ
اس کی پیشانی پہ لکھا ہوگا حرفِ انقلاب

وہ بھی دن اترے گا میری سرزمینِ پاک پر
اک وقار و تمکنت ہوگا غریبوں کا نصیب
قفل ٹوٹے گا لٹیروں کی تجوری کا ریاضؔ
آگئی ہے ظلمتِ شب ختم ہونے کے قریب