نئی غلامی کا نوحہ- ارض دعا

خالقِ کونین کو ارض و سما واپس کرو
جو ہوئی مقبول وہ بھی التجا واپس کرو

کربلائے عصر میں شامِ غریباں نے سنا
حکم ہے قاتل کو اپنا خون بہا واپس کرو

کیا قیامت ہے منادی ہو رہی ہے شہر میں
غیرکے آگے جھکو، نامِ خدا واپس کرو

ہم نے خود مردہ ضمیروں کا کیا ہے انتخاب
اپنے آباء کے مزاروں کی ردا واپس کرو

اے مغّنی کی صداؤ، گیت لوٹا دو مرے
اے زمیں کی خوشبوؤ، میری وفا واپس کرو

دشمنِ جاں کو رکھو تم اپنی جاں سے بھی عزیز
بچ گئی ہے جو وہ سب شرم و حیا واپس کرو

سر برہنہ ماں نے سر پر خاک ہے ڈالی ہوئی
بیٹیوں کےہاتھ کا رنگِ حنا واپس کرو

دفن کردو قائداعظمؒ کے پاکستان کو
شاعرِ مشرق کی بھی بانگِ درا واپس کرو

پھول سی زرخیز مٹی کا بھی سودا ہوچکا
ہر طرف چھائی ہوئی کالی گھٹا واپس کرو

اپنی غیرت کو بھی ہے نیلام گھر میں رکھ دیا
ماں کے ہونٹوں پر سسکتی سی دعا واپس کرو

شب کے سناٹوں میں چمکا ہے شہیدوں کا لہو
جاں نثاروں کی سرِ مقتل انا واپس کرو

درج ہے جس پر محبّانِ وطن کی داستاں
اُس کتابِ عشق کا ہر حاشیہ واپس کرو

سر جھکانا ہی مقدر ہے تو پھر میرے رفیق!
ابنِ حیدرؓ کو شعورِ کربلا واپس کرو

تم نے لوٹا ہے خزانوں کو مسلسل رات دن
ارضِ دلآویز کا ہر رتجگا واپس کرو

راس آزادی کے دن ہم کو نہیں آئے، ریاضؔ
دستِ قدرت کو پر و بالِ ہما واپس کرو
آج بھی صیّاد کا یہ حکم پہنچا ہے، ریاضؔ
گلستاں واپس کرو، بادِ صبا واپس کرو

سر پہ اپنے اوڑھ لو چادر غلامی کی ریاضؔ
طشتری میں رکھ کے بھارت کو انا واپس کرو