کتابِ آروز کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں- ورد مسلسل (2018)

کتابِ آروز کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں
میں خوشبو کے لبِ اظہار پر نعتِ نبی ﷺ رکھ دوں

خدا توفیق دے تو اِس برس بھی میں وضو کر کے
قلم کے ہاتھ پر خلدِ بریں کی دلکشی رکھ دوں

اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے درِ سلطانِ طیبہ پر
بوقتِ حاضری کشتِ ثنا پھولوں بھری رکھ دوں

بڑے ہی عجز سے امشب مواجھے کی فضاؤں میں
جو پڑھتی ہے درودِ مصطفیٰ ﷺ وہ خامشی رکھ دوں

مخاطب ہو کے اپنے آپ سے میں نے کہا شاعر!
بیاضِ نعت میں ارض و سما کی روشنی رکھ دوں

بہت جی چاہتا ہے مکتبِ جاں میں پسِ مژگاں
حروفِ نعتِ پیغمبر ﷺ میں آنکھوں کی نمی رکھ دوں

تمنا ہے یہی میری مدینے سے دمِ رخصت
درِ سرکار ﷺ پر اشکوں سے تر یہ زندگی رکھ دوں

ہوائے خلدِ طیبہ نے کہا مجھ کو اشارے سے
اِسی امید کے ساحل پہ کشتی کاغذی رکھ دوں

رہی ہے آرزو بچپن سے میری، شہرِ مدحت میں
حضورِ حسن توصیف و ثنا کی شاعری رکھ دوں

علاجِ غم یہی ہے کشتِ ویران و حوادث کا
کہ میں بزمِ تصور میں مدینے کی گلی رکھ دوں

چھپا کر اہلِ دنیا سے سند اپنی غلامی کی
مَیں طاقِ دیدہ و دل میں درودِ آخری رکھ دوں

مری آسان ہوں گی مشکلیں اُن ﷺ کے وسیلے سے
مصلّے پر ردائے عجز میں وابستگی رکھ دوں

کسی جلاد نے یہ فیصلہ ہے کر لیا آقا ﷺ
چراغوں کی قطاروں میں ہوا کی برہمی رکھ دوں

خدا کے فضل و رحمت سے ارادہ ہے کیا میں نے
رہِ اوہام میں آقا ﷺ حصارِ آہنی رکھ دوں

بڑی معقول ہے تجویز خالی آبخوروں کی
دعاؤں میں ریاضؔ بے نوا تشنہ لبی رکھ دوں