قصیدہ سیدِ لولاک ﷺ کا شب بھر سنا جائے- خلد سخن (2009)

قصیدہ سیدِ لولاکؐ کا شب بھر سنا جائے
طلوعِ فجر کا منظر مقدر میں لکھا جائے

اسی در پر، ادب سے بال و پر اپنے رکھے جائیں
اسی در پر، ابد تک، ہمسفر میرے، پڑا جائے

حصارِ طائفِ عصرِ جدیدہ کے مسلمانو!
سبق اُنؐ کے عمل سے استقامت کا لیا جائے

نری رسمی محبت کو سند جاری نہیں ہوتی
کتابِ سرورِ کونینؐ کو دل سے پڑھا جائے

عمل کے دائرے میں روشنی اب تک نہیں اُتری
سرِ محفل ہمارا سر ندامت سے جھُکا جائے

ہوائے شور و شر سے دوستی ہرگز نہیں اچھی
صبا عشقِ نبیؐ کے کیفِ پیہم میں رہا جائے

چلو چل کر تلاشیں نقشِ پائے مصطفیٰؐ ہم بھی
کہ ہر عکسِ حسیں اپنی ثقافت کا مٹا جائے

ہے ہر حرفِ لُغت یوں ملتمس مدحت نگاروں سے
کہ شاخِ نعتِ سرکارِ دو عالمؐ پر کِھلا جائے

صبا سرگوشیاں کرتی رہی ہے بوئے گلشن سے
سجی ہے نعت کی محفل، وضو کر کے رُکا جائے

بروزِ حشر جب سورج سوا نیزے پہ آئے گا
زہے قسمت کہ خاکِ شہرِ طیبہ سے اُٹھا جائے

درِ آقاؐ پہ شوخی کا تصور بھی نہیں ممکن
ضروری ہے صبا، چاکِ گریباں بھی سیا جائے

ہر اِک بچے کے ہاتھوں میں کھلونا ہو بدن میرا
مدینے کی فضاؤں میں کبھی یوں بھی بِکا جائے