مقفل ہو نہیں سکتا کبھی در قصرِ رحمت کا- ورد مسلسل (2018)

مقفل ہو نہیں سکتا کبھی در قصرِ رحمت کا
کھُلا ہے حشر تک بابِ کرم شہرِ رسالت کا

ثنائے مرسلِ آخر ﷺ رقم کرتے نہیں تھکتی
مقدّر کیا مقدّر ہے مری کلکِ مؤدت کا

خدا نے خلعتِ انوار میں ملبوس فرمایا
سرِ اقدس پہ رکھا تاج امت کی شفاعت کا

رسولوں کے رسولِ محتشم ﷺ کا ایک شاعر ہوں
کوئی اندازہ ہوگا تاجروں کو میری قیمت کا

کتابِ عشق کا پہلا ورق الٹا نہیں جاتا
کہ اس پر نام ہے لکھّا ہوا سالارِ امت ﷺ کا

چُرا کوئی نہ لے زنجیر شہرِ زر کی گلیوں میں
مجھے دھڑکا لگا رہتا ہے دیوانے کی دولت کا
کسی کی رہنمائی کی ضرورت اب نہیں باقی
فقط سکّہ چلے گا حشر تک اُن ﷺ کی قیادت کا

ندامت آگ بن کر جب بدن میں پھیل جاتی ہے
خنک سایہ اتر آتا ہے اُن ﷺ کے دستِ شفقت کا

ابد کے منشیٔ رحمت کی پڑھ تحریر تو غافل!
سرِ تسلیم خم روزِ ازل سے ہے عقیدت کا

پلٹ کر میں مدینے میں نہ آؤں تو کہاں جاؤں
نہیں طے مرحلہ ہوتا، مرے آقا ﷺ ، اذیت کا

حضور ﷺ اپنے تشخص کی علامت کیا مجھے ملتی
ابھی تک سامنا ہے آئنہ خانے میں حیرت کا

مری ہر شاخ پر صلِّ علیٰ کے پھول کھلتے ہیں
مجھے اعزاز حاصل خلدِ طیبہ کی ہے نسبت کا

قلم روزِ ازل سے مفتخر اُن ﷺ کی ثنا پر ہے
ہوا کب اور کہاں یہ مرتکب کفرانِ نعمت کا
یہ میری بدنصیبی مَیں رہا ہوں حلقۂ شب میں
کبھی خورشید ڈوبا ہی نہیں اُن ﷺ کی شریعت کا

مجھے ابلیس زادوں کی ہے سنگت جان سے پیاری
اندھیرا اس لیے ہے ہر طرف قعرِ مذلّت کا

کرے ارض و سما کا ذرہ ذرہ بھی ثنا اُن ﷺ کی
ازل سے یہ تقاضا ہے ریاضؔ اُس کی مشیّت کا