ترتیب- ورد مسلسل (2018)

اظہاریہ

حمد مالک الملک

چوٹیاں کیا دامنِ کہسار بھی سجدے میں ہے

حمد و نعت

عزیزانِ مدینہ کی دعاؤں کی ضرورت ہے
اُس ذاتِ لاشریک کو ربِ جہاں کہوں

سہ نعتیہ

درود پڑھتے ہیں مرغانِ مدحتِ آقا ﷺ

سلام

حضور ﷺ ، حرفِ معطر سلام کرتے ہیں

ذکرِ جمیل

اﷲ کے پاک نام سے مَیں ابتدا کروں
لاکھوں درود وردِ زبان و قلم رہے
قندیل آرزو کی جلائیں گی تتلیاں
درِ اقدس پہ رہتی ہے ازل سے چشم تر میری
سب پرندے، سب فضائیں، بال و پر پتھر کے ہیں
سر کے بل، در پر، چلے آئے، بہت اچھا کیا
درودوں کی، سلاموں کی، نبی ﷺ پر رم جھمیں برسیں
پھول، جگنو، تتلیاں جھک کر کریں اُن ﷺ کو سلام
اَطْلس و کمخواب کی دستار و خِلعت میں چراغ
دنیا میں صدرِ بزمِ رسالت وہی تو ہیں
اسمِ نبی ﷺ ہے لوحِ ثنا پر لکھا ہوا
روشن قلم ہے مدحتِ خیرالانام سے
مجھ کو مرے خدا نے ہے حرفِ ثنا دیا
روشن افق پہ طاق ہے لیل و نہار کا
ذکرِ جمیل ہر گھڑی گلبار آپ ﷺ کا
سمندر موجزن رہتا ہے ہر لحظہ درودوں کا
ہر ہر قدم پہ چاند ستارے بچھائے گی
عمر گزرے روشنی سے گفتگو کرتے ہوئے
ازل سے خاکِ مدینہ میں ڈھل رہا ہوں مَیں
ہر حرفِ آرزو میں مدینے کی دلکشی
سایۂ ابرِ کرم ہے خطۂ افکار پر
’’طلوعِ فجر‘‘ کا اسلوب دلکشی کا ہے
مدینے کے سفر کی التجا شام و سحر کرنا
یارب! ترے کرم کی نسیمِ سحر چلے
خوش نصیبی سے علم داروں میں ہیں
خدا کے بعد محمد ﷺ ہیں یہ ہوا ثابت
صد شکر مَیں سرکار ﷺ کی چوکھٹ پر پڑا ہوں
مَیں آئنوں کا سمندر تلاش کرتا ہوں
ثنا کی روشنی دے یاخدا! ہر لکھنے والے کو
تا حَشْر آسماں کی بلندی پہ یانبی ﷺ !
کیا خوب تا ابد ہے یہ قدرت کا اہتمام
دستِ طلب ہے رحمتِ پروردِگار میں
طشتِ درودِ پاک سپرد ہوا کریں
ہنگامۂ حیات میں چارہ گری کریں
مقفل ہو نہیں سکتا کبھی در قصرِ رحمت کا
مَیں خود بھی، قلم بھی مرا، انوار میں گُم ہیں
دستِ صبا پہ رکھتا ہوں مدحت کی روشنی،
ریگِ عرب سے چاند ستارے چنا کرو
لحد میں بھی کھِلے گا، آسماں والو، چمن میرا
ثنا گری کا سلیقہ مجھے ودیعت ہو
حروفِ نعت سے مصروف گفتگو میں رہوں
چراغِ نعت ہونٹوں پر جلے اسمِ گرامی کا
بہارِ نعت کا حسن و جمال رکھتے ہیں
مرا شعور مدینے کی ہر گلی میں رہے
ریاضؔ، اُس شہرِ دلکش کے گلی کوچوں میں کھو جائیں
نامِ نبی ﷺ لیا تو کھِلے روشنی کے پھول
عرب کے ریگ زاروں کی ہواؤں کا ملے صدقہ
زندہ عمل میں رکھو شریعت حضور ﷺ کی
عروسِ صبحِ نو کے لب پہ ذکرِ مصطفی ﷺ ہوگا
کتابِ دل میں پھر اسمِ نبی ﷺ ہو گا رقم امشب
پیوندِ خاک ہجر کی دیوار ہو کبھی
دستِ صبا پہ رکھا گیا موسمِ بہار
عشقِ ختم الرسل ﷺ میں گرفتار ہوں
تیرگی میں مطلعِ انوار کی باتیں کریں
قرآں کے لفظ لفظ میں مذکور کون ہے
گہر ہی گہر ہے ثنائے محمد ﷺ
مرے گھر میں آئے بہارِ مدینہ
جو گذری ہے وہ کس کس کو بتائیں یارسول اللہ
کیا خوئے پذیرائی ہے ہر ایک شجر میں
اُس در پہ اپنی جان کا نذرانہ دھر چلیں
اہلِ دنیا تو ہیں بے مروت دل تمہارا دکھاتے رہیں گے
عیدِ میلادِ خیر الوریٰ ہے، بام و در رقص میں آرہے ہیں
یارسولِ خدا، بابِ رحمت ہو وا، مصطفی مصطفی مصطفی مصطفی
قلم کے ساتھ ثنا کے ہوں شامیانے میں
قریۂ جاں میں وہ تیرگی ہے فرد اپنے لیے اجنبی ہے
پکاریں آپ ﷺ کو کب سے نوائیں یارسول اللہ ﷺ
سر پر ہے ثنا خوانی کی دستار مسلسل
حصارِ کرب و غم میں شب بسر ہوتی نہیں آقا ﷺ
ان ہجر کی راتوں میں طیبہ کی یاد ستاتی رہتی ہے
ہر سَمْت سے رحمت کے بادل چلے آئیں گے
زمینِ زرد کو کالی گھٹائیں آپ ﷺ دیتے ہیں
نیا سورج ازل سے تابشِ غارِ حرا میں ہے
حضوری کے یہ لمحاتِ ادب قسمت سے پائے ہیں
غریبِ دل پہ تسلّط دکھوں کا جاری ہے
امیرِ قافلہ سے، ہسفر، اتنا تو کہنے دو
دامنِ شہرِ قلم میں رقص کرتا ہے خیال
سرِ مقتل۔ عَلَم لے کر، نکل آؤں گا مَیں کیسے
میٹھی میٹھی کھجوروں کی سوغات دیں
بساطِ عشق پر اپنی غلامی کے گہر رکھ دیں
نعتِ حضور ﷺ کورے ورق پر اتار لے
عجب سا کیف ملتا ہے مواجھے کی فضاؤں میں
لوحِ جاں خطرے میں ہے، حرفِ اذاں خطرے میں ہے
ہر نقشِ کفِ پائے محمد ﷺ ہے منوّر
گو ہر قدم پر اک نئی ٹھوکر ملی مجھے
پہنے ہوئے ثنا کی ہیں پوشاک آج بھی
رخشندگی ملے گی، تابندگی ملے گی
کشادہ صحنِ جاں میں آرزو خیمے لگائے گی
تیرگی کا سمندر ہے چاروں طرف،
جمالِ محمد ﷺ ، جلالِ محمد ﷺ
اک نمونہ آپ ﷺ ہیں ساری خدائی کے لیے
اب تجھے کیا ہوا! مَیں بتاؤں کیسا پیارا ہے نامِ محمد ﷺ
ہر روز برستی ہیں آنکھوں سے تمنائیں
سوائے چاند تاروں کے ملے گا کیا خلاؤں میں
مَیں بھکاری ہوں شہرِ نبی ﷺ کا،
چراغِ آرزو گھر میں جلا لینا ہی بہتر ہے
غلاموں کے غلاموں میں مجھے بھی کیجئے شامل
مرے قصرِ محبت کی بنا اشکوں نے رکھی ہے
کتابِ دل کے ورق کا مَیں حرفِ تازہ ہوں
سیرت سے اُن ﷺ کی نعت کا دامن سجاؤں گا
چراغِ رنگِ سخن جل اٹھے ہواؤں میں
ضبطِ فغاں کی شاخ پہ صبر و رضا کے پھول
چہرہ ہے سرخ حشر کے دن آفتاب کا
قافلہ اترے کبھی آقا ﷺ کے قدموں کی طرف
درِ آقا ﷺ پہ مطلع نعت کا خوشبو سناتی ہے
حروفِ نعتِ نبی ﷺ میں سجائی ہیں آنکھیں
چراغاں کر، مرے افکار میں، اے آسماں والے
شناسا روشنی سے ہو مرے اندر کا انساں بھی
کتابِ آروز کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں
یہ جو رہتا ہے مرے لب پہ وفورِ رحمت
اک نظر یاسیّدی ﷺ ! میرے بھی حالِ زار پر
دِر سرکارِ دو عالم ﷺ پہ میری چشمِ تر برسے
تا ابد رقصاں رہے، میرے خدا! میرا قلم
مدینے کی ہواؤں سے کریں گے گفتگو اِمشب