کسی اندھے کنویں پر لفظ کی فرسودگی برسے- کتابِ التجا (2018)

در و دیوارِ ارضِ پاک پر آسودگی برسے
غلامانِ محمدؐ کے وطن پر چاندنی برسے

مرے مکتب میں اس کا داخلہ ممنوع ہو، یارب!
کسی اندھے کنویں پر لفظ کی فرسودگی برسے

وہ تاریکی سی تاریکی ہے جگنو بھی نہیں کوئی
چراغوں کی لووں پر آسماں سے روشنی برسے

جہالت کے پروں کو کاٹ ڈالے عِلْم کا سورج
مرے بچوں کے ذہنوں پر شعور و آگہی برسے

کھُلیں ہر سمت پرچم عافیت کے اے خدا میرے
فضاؤں سے ہمیشہ امن کی رخشندگی برسے

ہوا میں سانس لینے کی اجازت ہر کسی کو ہو
ہماری نَسْلِ نو کے ہر عمل سے دوستی برسے

ہزاروں بحر و بر حُبِّ نبی کے دے مرے مولا!
جبیں سجدے میں ہے اس پر شعورِ بندگی برسے

الجھتی ہیں ہوائیں کس لئے کمزور چڑیوں سے
اِنہی کمزور چڑیوں سے چمن میں دلکشی برسے

نفاذِ عدل کی قندیل سے روشن رہیں آنگن
ہر اک قاتل کے بازو پر جلالِ آہنی برسے

خزاں پامال کرنے کا ہنر کھو دے مرے مولا!
تر و تازہ گلابوں پر ہمیشہ تازگی برسے

ورق پر کہکشاں خیمے لگائے آج کی شب بھی
قلم پر ذکرِ ختم المرسلیںؐ کی شاعری برسے

حروفِ نو کے باطن کے مَیں در کھولوں سرِ مکتب
ریاضِؔ بے نوا کی خامشی پر نغمگی برسے