روزِ محشر بھی لکھوں تیری ثنا کے کالم- کتابِ التجا (2018)

قریۂ جاں میں کھلیں حمد و ستایش کے علَم
صرف زیبا ہے تری ذات کو ہر جاہ و چشم

حوصلہ دیتا ہے تاریک جزیروں میں تو ہی
آج بھی رکھ تُو مری عرضِ تمنّا کا بھرم

آج بھی ابرِ سخا جھوم کے اٹھے، یارب!
آج بھی میری ہر اک سانس ہے محتاجِ کرم

ایک معبودِ حقیقی ہے تری ذاتِ قدیم
اور باطل ہیں مری ذات کے اندر کے صنم

بندۂ عاجز و بیکس کی ہے اوقات ہی کیا
روزِ محشر بھی لکھوں تیری ثنا کے کالم

تشنہ کامی مری مٹی کی پکارے تجھ کو
اپنی آغوش میں لے لے مجھے دامانِ کرم

روشنی ہو مری بستی کے دریچوں میں کبھی
پھر دیے رکھے فصیلوں پہ ہوائے برہم

کتنی صدیوں سے ہیں مقروض کسی کی نسلیں
ایک اک ممٹی پہ خوشحالی کا اترے پرچم

تھام لے انگلی مری شہرِ مدینہ کی ہوا
مرکزِ عشق کی جانب اٹھیں اب میرے قدم

تیرے محبوبِؐ مکرم کی شفاعت ہو نصیب
حرفِ بخشش ہو مری فردِ جرائم میں رقم

عجز کے پھول کھلیں کشتِ ہنر میں یارب!
سجدۂ شکر بجا لائیں مرے لوح و قلم