جوارِ کلکِ مدحت میں دھنک جذبوں کی اتری ہے- نصابِ غلامی (2019)

جوارِ کلکِ مدحت میں دھنک جذبوں کی اتری ہے
مری کشتِ سخن توصیف کے پھولوں سے مہکی ہے

یہ کس نے میری تختی پر نبی ﷺ کا نام لکھا ہے
مجھے صورت قلم کی جانی پہچانی سے لگتی ہے

گریں اب سبز بوندیں شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے
کئی صدیوں سے نیلے آسماں پر سرخ آندھی ہے

دھواں بجھتے چراغوں کا سجا کر اپنی پلکوں پر
مری آنکھوں نے بینائی درِ اقدس پہ مانگی ہے

مہاجن کھیتیاں میری اٹھا کر لے گئے، آقا ﷺ
متاعِ عدل ڈالر کے غبارِ زر میں بکھری ہے

بلاوا آ ہی جاتا ہے اگر سائل کے سپنے میں
طلب سچی مدینے کے گلی کوچوں کی ہوتی ہے

جہاں سورج کی کرنوں کا گذر ہوتا نہیں، آقا ﷺ
مری عمرِ رواں جنگل کے اُس حصے میں گذری ہے

مدینے میں سکونت کا اقامہ مل گیا ہو گا
صبا رختِ سفر باندھے گلستانوں سے نکلی ہے

نبی جی ﷺ ، اس طرف برسات ہو دن رات رحمت کی
مرے آنگن میں کھلتی کھڑکیوں پر آگ برسی ہے

ابھی اترے ہوئے چہرے ہیں میرے ناخداؤں کے
ابھی امواجِ سرکش میں گھری کاغذ کی کشتی ہے

ریاضؔ، اوراقِ دل کے حاشیے پر سبز لفظوں سے
ثنائے مرسلِ آخر ﷺ مرے اشکوں نے لکھی ہے