دست بستہ یوں تو ہے کب سے عجم کی روشنی- نصابِ غلامی (2019)

دست بستہ یوں تو ہے کب سے عجم کی روشی
صرف ہو میرے مقدّر میں حرم کی روشنی

جھوم کر اترے دھنک صلِّ علی کہتے ہوئے
منتظِر لوحِ ادب پر ہے قلم کی روشنی

کہکشاں تو کہکشاں، افلاک میں چاروں طرف
یانبی ﷺ ، ہے آپ ﷺ کے نقشِ قدم کی روشنی

آج بھی دامن بچھا کر آپ ﷺ کی دہلیز پر
ملتمس ہے زندگی کے پیچ و خم کی روشنی

آپ ﷺ کا قاصد مرے گھر میں جب آیا تھا، حضور ﷺ
ہر قدم پر میرے اشکوں نے رقم کی روشنی

کب سخن کی تنگناؤں سے گذرنا ہے پڑا
ہے بیاضِ نعت میں میرِ امم ﷺ کی روشنی

تا ابد سر پر رہے گی ہر کسی مخلوق کے
سیدِ سادات ﷺ کے دستِ کرم کی روشنی

امنِ عالم کی ضمانت دے رہی ہے آج بھی
لشکرِ سرکارِ طیبہ کے عَلم کی روشنی

عالمِ برزخ میں بھی ہے کہکشاؤں کا ہجوم
مرقدِ شاعر میں ہے ملکِ عدم کی روشنی

ہجرِ سرکارِ مدینہ ﷺ میں رہی شب بھر شریک
محترم ہے اس لیے رنج و الم کی روشنی

کب مجھے معلوم ہے، کتنے زمانوں سے، ریاضؔ
اُن ﷺ کی چوکھٹ پر پڑی ہے چشمِ نم کی روشنی