دیارِ رحمت میں چل کے رہیے سکونِ دل کی غذا ملے گی- زر معتبر (1995)

دیارِ رحمت میں چل کے رہیے سکونِ دل کی غذا ملے گی
چراغ لے کر قدم قدم پر عروسِ بادِ صبا ملے گی

گلاب مدحت کے کِھل رہے ہیں حریمِ عرفاں کی کیاریوں میں
درُود پڑھتے ہوئے جوارِ دل و نظر میں صدا ملے گی

سحر کا گھونگھٹ اُلٹ کے شبنم دھنک کا آنچل بکھیر دے گی
اگیں گے کالی زمیں میں سورج وہ رحمتوں کی گھٹا ملے گی

کبھی بلاوا ہمیں بھی آئے گا نور و نکہت کی وادیوں سے
کبھی تو مہکیں گے زخم اپنے کبھی تو خاکِ شفا ملے گی

غلام زادوں کی سب خطائیں معاف کیجئے رُسولِؐ رحمت
برہنہ سر ہم کھڑے ہیں کب سے حضورؐ کب تک سزا ملے گی

ثناء کے پھولوں کے لے کے گجرے نکل پڑیں گے ہم اپنے گھر سے
شمیمِ شہرِ رسول چاروں طرف ہمیں پرکُشا ملے گی

ہر ایک ساعت بہار صلِّ علیٰ کی خوشبو لیے ہوئے ہے
حدودِ جنت کی خلوتوں میں بھلا کہاں یہ فضا ملے گی

اگرچہ لطف و کرم کے قابل نہیں ہیں ہم رو سیاہ لیکن
ہمیں بھی اُنؐ کے کبھی تو قدموں میں دیکھ لینا جگہ ملے گی

ہم اُنؐ کے در پر پڑے رہیں گے سوال بن کر کھڑے رہیں گے
اور اُنؐ کی چوکھٹ کو چوم لیں گے ہمیں کرم کی ردا ملے گی

ریاض ہجرِ نبیؐ میں آنسو بہا رہے ہو، زہے مقدّر
یقینِ کامل ہے تم کو شہرِ نبیؐ کی آب و ہوا ملے گی