اِک خوفِ انحطاط ہے، خوفِ زوال ہے- نصابِ غلامی (2019)

اک خوفِ انحطاط ہے، خوفِ زوال ہے
منقار زیرِ پر ہو تو اڑنا محال ہے

جگنو لکھے ہوئے ہیں حروفِ سپاس میں
دستِ غزل میں آج بھی کرنوں کا تھال ہے

خیمے سپاہِ عشق کے اب جل چکے تمام
کرب و بلائے عصر میں شامِ قتال ہے

کن ڈوبے ساحلوں کی طرف ہو رواں دواں
امت کے ناخداؤں سے میرا سوال ہے

محنت کشوں نے پائی ہے دستار آپ ﷺ سے
محنت کشوں کے ہاتھ میں محنت کدال ہے

حوا کی بیٹیوں کے مقدّر پہ رشک کر
قسمت میں ان کی عظمت و عفت کی شال ہے

جنت بھی دم بخود ہے سرِ حشر، کیوں نہ ہو
پیشِ نظر حضور ﷺ کا حسن و جمال ہے

سانسوں میں اڑ رہی ہیں درودوں کی تتلیاں
آب و ہوائے شہرِ نبی ﷺ بے مثال ہے

آنکھو! سمیٹ لو درِ آقا ﷺ کی روشنی
اس وقت مہربان ہوائے شمال ہے

چشمِ کرم ہو حالِ دلِ زار پر، حضور ﷺ
لپٹا ہوا بدن سے مسائل کا جال ہے

کب سے کھڑا ہے روضۂ اقدس کے سامنے
اک بے نوائے شہر کہ غم سے نڈھال ہے

ڈرتا ہے خود کو امتی کہنے سے بھی ریاضؔ
اوقات اس کی کیا ہے بھلا کیا مجال ہے