اُٹھے ہیں ہاتھ مِرے اے خدا دعا کے لیے- زر معتبر (1995)

اُٹھے ہیں ہاتھ مِرے اے خُدا دُعا کے لیے
مچل رہے ہیں مِرے لفظ بھی صدا کے لیے

قبائے شعر سمیٹے گی پھول مدحت کے
جمالِ حرفِ سخن ہے فقط ثنا کے لیے

دیارِ حُسن و عقیدت کا تذکرہ کیجئے
صبائے شہرِ مدینہ چلے خدا کے لیے

میں ریگ زارِ تمنّا میں کس طرف دیکھوں
بجز دیارِ نبیؐ موجۂ ہوا کے لیے

میں اپنے ظرف سے بڑھ کر طلب نہیں کرتے
کوئی چراغ جلے شہرِ بے ضیاء کے لیے

وہ چاکِ فقر رفو جس نے آدمی کو کیا
وہ چاکِ فقر عطا ہو مِری قبا کے لیے

جبینِ شوق میں کب سے ریاضؔ سجدوں کو
چھپا رکھا ہے عقیدت نے نقشِ پا کے لیے