قریۂ نسبت محمدی- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گذری ہے بستی سے
یہ کیسا منظر دلکش مری آنکھوں میں روشن ہے
کہیں پر پھول مہکے ہیں
کہ خوشبو چار جانب سے امڈتی ہے
کہیں پر چاند اترتے ہیں
کہ ہر سو روشنی کی کرچیوں کا اک سمندر ہے
کہیں پر اشک سلگے ہیں
کہ ان میں اَن گنت عکسِ حسیں روشن ہیں صدیوں سے
کہیں پر لفظ سمٹے ہیں
لغت تفہیم کے آنگن میں اوراقِ منور پر معانی کی نئی کلیاں کھلاتی ہے
کہیں پر آئنے اشکوں کے پلکوں پر چمکتے ہیں
کہیں پر روشنی شبنم کے رخساروں پہ گرتی ہے
کہیں پر وجد میں آتی لہو کی سرخ بوندوں میں
پرندے سبز موسم کے نئے منظرسجاتے ہیں
کہیں پر آسمانوں کی دھنک گجرے بناتی ہے
کہیں پر حسنِ فطرت کی کشش زنجیر بنتی ہے تو پاؤں رکنے لگتے ہیں

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گذری ہے بستی سے
یہ کیسا منظرِ دلکش مری آنکھوں میں رہتا ہے
کہیں اجلی سحر کے نام کی تختی ہے آویزاں
کہیں تہذیب کے آنچل میں کلیاں ہیں محبت کی
کہیں پر خوشبوئیں کرنوں کے جھرمٹ میں
نئے دن کے اجالوں کا سواگت کرنے آتی ہیں
ورق پر اپنے اشکوں سے کسی کا نام لکھتی ہیں
وہ تصویرِ ادب بننے کی حسرت دل میں رکھتی ہیں
کسی کے نقشِ پا کو ڈھونڈنے کی آرزو چشمِ تصور میں مچلتی ہے
کہیں رعنائیوں کے پیرہن پھولوں کو مِلتے ہیں
جزیرے علم کے سوچوں کے امواجِ درخشاں سے، گلے مل کر،
غبارِ شب میں روشن ہیں
کہیں پر آبجو دونوں کناروں پر لئے گجرے کسی کی راہ تکتی ہے
کہیں بادِ خنک صحرائے دل میں جاگ اٹھتی ہے

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گذری ہے بستی سے
یہ کیسا منظرِ دلکش مری آنکھوں میں اترا ہے
کہیں ہونٹوں پہ حرفِ آرزو آنکھیں بچھاتا ہے
کہیں شاداب موسم رتجگے آغاز کرتے ہیں
کہیں پر بدلیاں سجدوں کی رم جھم کے علم تھامے نئے معبد بناتی ہیں
کہیں پر ساعتوں کے ہاتھ میں خوشبو کے پرچم ہیں

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گذری ہے بستی سے
یہ کیسا منظرِ دلکش مری آنکھوں نے دیکھا ہے
کنیزیں منتظر رہتی ہیں اپنے گھر کی چوکھٹ پر
لئے پھولوں کا گلدستہ
کھڑا رہتا ہے ہر بچہ
دھنک کے رنگ لوحِ آرزو پر پھول رکھتے ہیں
در و دیوار بھی آنکھیں بچھاتے ہیں گذر گہ میں
فضا میں جگنوؤں کی ٹولیوں پر وجد طاری ہے
سحر ہر منتظر ساعت کی آنکھیں چوم لیتی ہے
گلی میں موسمِ گل کے بچھے جاتے ہیں پیراہن

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گذرے تو یہ کہنا
تری آنکھوں میں لشکر حیرتوں کے ہیں تو سن رک کر
یہاں مینار مسجد کے اذانوں کی ردا اوڑھے، فلک کی سمت اٹھتے ہیں
یہاں ارض و سما کے مالک و مختار کے آگے
جبیں سجدوں میں اس کی بندگی کا نور چنتی ہے
اُسی کی ہیں ربوبیّت کے چرچے قریۂ جاں میں

صبا سرگوشیاں کرتے ہوئے گزرے تو یہ کہنا
یہاں سانسوں میں نعتِ مصطفیٰ ﷺ کے پھول کھلتے ہیں
یہاں ہر آنکھ میں ہے گنبدِ خضرا کی ہریالی
یہاں پر فاختائیں امن کے پیڑوں پر اتری ہیں
یہاں جگنو سلامی کی فضا میں گشت کرتے ہیں
یہاں پر نیند سے بوجھل سمے کو باریابی کی اجازت ہی نہیں ملتی
یہاں دیوار و در صلِّ علیٰ کا ورد کرتے ہیں
درودوں کی دھنک ہر اک مکاں کو ڈھانپ لیتی ہے
چراغِ نسبتِ سرکار ﷺ، ہر گھر کے دریچوں میںبشارت دے رہے ہیں
صبحِ میلادِ پیمبر ﷺ کی
چراغِ مدحتِسرکار ﷺ اس بستی میں جلتے ہیں
ہزار وں تتلیاں شاخِ قلم پر رقص کرتی ہیں

صباآئے تو اس کو نرم لہجے میں یہ سمجھانا
ادب کی اوڑھنی سر پر لئے بستی سے گذرا کر
کہ اس بستی کے ہر آنگن کے پیڑوں پر ثنا کے پھول کھلتے ہیں
بدن کے زخم سلتے ہیں

صبا آئے تو اس کو نرم لہجے میں بتا دینا
’’غلامانِ محمد ﷺ کا حصارِ آہنی ہے یہ
وطن کے واسطے جتنی بھی ممکن ہو دعا لکھنا‘‘