تلاش- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

صبا پوچھتی پھر رہی تھی کسی سے
کہ کس گھر کے آنگن میں صبحِ بہاراں
کئی دن سے خیمے لگائے ہوئے ہے
کہ کس گھر کی اجلی منڈیروں پہ خوشبو
چراغِ محبت جلائے ہوئے ہے
کہ کس گھر کے ہر طاق میں سبز موسم
نگینے ثنا کے سجائے ہوئے ہے
کہ کس گھر کے اوپر کھلے آسماں میں
دھنک رنگ اپنے لٹائے ہوئے ہے
کہ کس گھر کے روشن دریچوں کے اندر
بہاروں کی ہر دلکشی پر فشاں ہے
کہ کس گھر کی دہلیز پر اشکِ پیہم
تمنا کی کلیاں بچھائے ہوئے ہیں
کہ کس گھر کے مہکے ہوئے روزنوں میں
ستاروں کے جھرمٹ اترتے رہے ہیں
صبا ہر کسی سے یہی کہہ رہی تھی
کہ اُس گھر کے دیوار و در میں ازل سے
مدینے کی یادوں کے پیراہنوں میں
اجالے افق کے سمٹتے رہے ہیں
کہ اُس گھر کے چھوٹے بڑوں کے لبوں پر
خنک پانیوں کے سمندر رواں ہیں
کہ اُس گھر کے بچوں کے ہاتھوں پہ خوش بختیوں سے
ثنائے نبی ﷺ کی لکیریں بنائی گئی ہیں
کہ اُس گھر کی ساری کنیزوں کی پر نور آنکھوں میں کب سے
عقیدت کے سر سبز لمحات اترے ہوئے ہیں
کہ اُس گھر کی نیلی فضاؤںمیں صلِّ علیٰ کے دیے جل رہے ہیں
کہ اُس گھر میں شہرِ پیمبر ﷺ کا دیوانہ شاعر
مدینے کی بستی بچھائے ہوئے ہے
جہاں گنبدِ سبز کا عکس ہر آئنے میں فروزاں ہوا ہے
وہ دیوانہ شاعر
جو زنجیر اپنے سرہانے کے نیچے سجاتا ہے ہر شب
قلم کو عقیدت کے پیراہنوں میں لپیٹے ہوئے ہے
ورق پر درِ مصطفیٰ ﷺ کا وہ نقشہ بناتا رہا ہے
صبا پوچھتی پھر رہی تھی کسی سے
بتاؤ مجھے کون سی وہ گلی ہے
جہاں اُس کا گھر عشق کے سبز پانی میں ڈوبا ہوا ہے
کسی ایک بچے نے پوچھا صبا سے
تو کیوں پوچھتی ہے پتہ اُس کے گھر کا
کہ اُس کو تو افلاس و غربت ہی گھیرے ہوئے ہیں
وہ مجہول ناکارہ سا ایک شاعر
تجھے خاک دے گا؟
صبا نے کہا ہاں، بتاتی ہوں تجھ کو
ثنائے نبی ﷺ کے خزانوں کی کنجی
اُسے بھی عطا کی گئی ہے ازل سے
یہ کنجی ہمیشہ وہ رکھتا ہے گھر میں
وہ گھر دیکھ لینا
ابد تک نگاہوں کا مرکز بنے گا
بتاؤ مجھے کون سی وہ گلی ہے
جہاں اُس کا گھر عشق کے سبز پانی میں ڈوبا ہوا ہے
مَیں اُس گھر کی دہلیز کو چوم لوں گی
مَیں اُس گھر کی خاکِ غلامی سے اپنی چنریا بُنوں گی